زنجیر بستہ قبر کا احتجاج
( سندھ کے ضمیر سائیں عطا محمد بھنبھرو کو خراج )
تحریر: مشتاق علی شان
دی بلوچستان پوسٹ
4جون کو سندھ کے ضلع خیر پور میرس کے گوٹھ بچل بھنبھروکے قبرستان میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے گیتوں اور سندھو دیش کے ترانے کی گونج میں سندھ کے ممتاز وطن پرست دانشور ، مورخ، محقق ، ادیب اورمترجم سائیں عطا محمد بھنبھرو کی تدفین ، اس کے بعد قبرکو آہنی زنجیروں سے جکڑنے کے مناظر اور اس سے بھی بڑھ کر ان کی وصیت نے ایک کہرام برپا کر دیا ۔ زنجیروں میں جکڑی تالا لگی ان کی قبر کی ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ایک جانب سندھ سمیت دنیا بھرمیں ان کے بے پناہ چاہنے والوں ، یہاں تک کہ ان کے قوم پرست نظریا ت سے اختلاف یاکلی اتفاق نہ رکھنے والے باضمیر انسانوں نے بھی اس دھرتی زادے ، اس کی مٹی سے محبت میں گندھی ، یعنی سندھو جل سے لکھی وصیت کو خراجِ تحسین وتائید پیش کیا۔ سائیں عطا محمد بھنبھروکہا کرتے تھے کہ ”میں سندھ کا سرفروش بیٹا ہوں اور اس کی آزادی کا متمنی ہوں۔“ وہ جس آزادی کے متمنی اور اپنی آخری سانسوں تک اس کے لیے پر امید رہے ، اس کا سورج ابھرتا تو نہیں دیکھ سکے البتہ موت کا بھاری پتھر چوم جانے والی وہ سرکش اور باغی روح جس کی ساری زندگی علم وتحقیق کے ساتھ ساتھ مزاحمت اور احتجاج سے عبارت تھی ، اس نے بعد از مرگ بھی اپنی قبر کو مزاحمت اور احتجاج کی دنیا میں ایک انوکھا مثال بنا دیا۔ یہ سندھو ماتا سے اس کے ایک بیٹے کے عشق کی لازوال داستان ہے اور سندھ واسیوں کے سیاسی، مزاحمتی شعور کی بے نظیر مثال بھی.
دوسری جانب ابھی ان کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ اپنی ”ڈیوٹیوں“ پر معمور دین، دھرم ، اخلاقیات اور حب الوطنی کے خود ساختہ نمائندے بھی حرکت میں آگئے ۔ منافقت کے شہکارملفوف لفظوں سے لیکر زہر میں بجھی تحریروں تک اس حوالے سے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر “سندھی” اور غیر سندھی گل خانوں کی طرف سے بہت کچھ مشتہر ہوا اور ہو رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں ان کے علم ودانش اور طاقتور افکار سے خوفزدہ رہنے والی نوآبادیاتی ذہنیت ان کی قبر تک سے جس طرح خوفزدہ ہے وہ 1961میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف کانگو کی تحریک آزادی کے نوجوان انقلابی رہنمااور آزاد کانگو کے پہلے وزیر اعظم پیٹرس لوممباکی یاد دلاتی ہے ۔
پیٹرس لوممبا کو آزادی کے محض 81 دن بعد ہی سامراجیوں کی ایما پر قتل کیا گیا اور ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد ، تیزاب کے ذریعے تحلیل کر دیا گیاتھا ۔ اس وقت کسی نے پیٹرس لوممبا کے بارے میں کہا تھا کہ اپنی نامعلوم قبر میں محو خواب مردہ لوممبا زندہ لوممبا سے زیادہ خطرناک ہے ۔ ٹھیک اسی طرح سندھ کو اپنی نوآبادی سمجھنے والی بندوق بردار ذہنیت اور اس کے شامل باجے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ گوٹھ بچل بھنبھروکے گورستان میں چاروں طرف سے زنجیروں میں جکڑی یہ قبرزندہ عطا محمد بھنبھرو سے زیادہ خطرناک ہے، جس پر ان کی وصیت کے بموجب تحریر ہے کہ ” یہاں سندھو دھرتی ماتا کی مٹی کا ایک غلام دفن ہے۔ اس کی قبر سندھو ماتا کی آزاد ہونے تک زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔“
بیرونی تجاوز کاروں اور مذہب کا لبادہ اوڑھے قبضہ گیروں کو چرکے لگانے والی سائیں عطا محمد بھنبھرو کی وصیت کچھ یوں ہے :
(۱)میں عطا محمد ( محمد بچل ) ولد محمد بخش بھنبھرو اپنی عقل سلیم کے مطابق اپنی اولاد اور قریبی دوستوں کے لیے وصیت چھوڑے جا رہا ہوں کہ مرنے کے بعد میری مذہبی رسومات ادا نہ کی جائیں۔ کیوںکہ میں مذہب کو ایک بڑا فریب اور جھوٹ سمجھتا ہوں۔
(۲)مجھے لحد میں اتارنے سے قبل کفن کا اوپر والا حصہ کھول کرمیرا چہرہ اور سینہ ظاہرکیا جائے ۔ اور مجھے قبر میں سینے کے بل رکھا جائے تاکہ میراسینہ دھرتی ماتا سندھ کی چھاتی سے مل جائے ،اور میرے لب خاک ہونے تک دھرتی ماتا سندھ کو چومتے رہیں۔
(۳)میری قبر کو سیمنٹ سے پختہ کیا جائے اور اسے چاروں جانب مضبوط آہنی زنجیروں سے جکڑ دیا جائے۔ جب میری جیجل سندھو ماتا آزاد ہو جائے ،تب میری قبر سے یہ زنجیریں ہٹا کر اسے آزاد کر دیا جائے۔
(۴)
میری قبر کے سرہانے پتھر کا کتبہ نصب کیا جائے، جس پر لکھا ہو کہ یہاں دھرتی سندھو ماتا کی مٹی کا ایک غلام دفن ہے۔ اس کی قبر سندھو ماتا کے آزاد ہونے تک زنجیروں میں جکڑی رہے گی ۔
عطا محمد بھنبرو ، ۲۱ نومبر۲۱۰۲
سائیں عطا محمد بھنبھرو کی اس وصیت جس پر مختلف سمتوں سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اس پر بات کرنے سے قبل ان کی زندگی اور سندھ کے لیے کی گئیں خدمات پر مختصر روشنی ڈالنا ضروری ہے ۔ سائیں عطا محمد بھنبھرو یکم فروری 1936کو سندھ کے ضلع خیر پور میرس کے ایک گوٹھ بچل بھنبھرو میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے کراچی ،سندھ کے ایس ، ایم لاءکالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصہ تک سندھی زبان کے نامور شاعر شیخ ایاز کے ہمراہ پریکٹس بھی کی ۔1967میں انھوں نے سندھ کے مزاحمتی کردار ہوش محمد شیدی کے نام کی مناسبت سے ”ہوشو“ نامی رسالہ جاری کیا جو 1974تک شایع ہوتا رہا۔ سندھ کی تاریخ، آرکیالوجی ، نظریہ ارتقا ، انقلاب ، فنِ حرب اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے افکار سمیت انھوں نے بے شمار موضوعات پر قلم اٹھایا ، انگریزی ، روسی اور ایرانی ادب سے بچوں کے ادب کو سندھی کے قالب میں ڈھالا ،سندھی زبان میں افسانے لکھے ،MRDتحریک کے شہدا سے متعلق شاعری کی، سندھی اسکرپٹ سے متعلق دو تحقیقی اور دیگر کتابیں قلم بند کرنے کے علاوہ دنیا بھر کے بنیاد پرستوں پر کڑا وار کرنے والے چارلس ڈارون کی عظیم کتابOrigin Of Species ، فنِ حرب پر قدیم چینی عسکری مفکراور جنرل سن زو کی مشہور عالم کتاب ”آرٹ آف وار“ ،ول ڈیورانٹ کی معروف کتاب ” تاریخ کے اسباق “ ، شاہ عبدالطیف بھٹائی کے افکار پر ایچ، ٹی ،سورلے کی کتاب ” شاہ آف بھٹ“ ،”سکندر اور دیگر یونانیوں کی سندھ میں موجودگی“ ،”موہن جو دڑو کی سو مہریں“، ”امریکا کے سندھی“ ،” سکندر کا حملہ“ ( ایرین) ، ”حر گوریلا جنگ“( ایچ، ٹی ہیمرک)،” سندھ کے آثارِ قدیمہ “ ( ہنری کزنز)”سندھ میں قدیم کھنڈرات کی کھدائی“(این،جی ، مجمدار)،” سندھ اور ہند کا قدیم جغرافیہ “(الیگزینڈر کننگھم)،”سندھ میں انگریزوں کی حکمت عملی“(ڈاکٹر ایڈرین ڈیورٹی)،”سندھی لکھائی اور زبان“(ایس ، آر، رائے)،”سندھ کی تاریخ مورخین کی زبانی“ ( ایچ، ایم، الیٹ) ،“ سندھو شیر دریا “(جین فیرلی )اور ” سندھو کا سفر“( الیگزنڈر برنس) سمیت سندھ کے متعلق سو سے زائد شہکارکتابیں ترجمہ کئیں۔
جنابِ عطا محمد بھنبھرو سندھ کے وہ عاشقِ صادق تھے، جن کی تحقیق وتحریر کا مرکز سندھ ، سندھ کی تاریخ وجغرافیہ، سندھی زبان، یہاں کے لوگ اور ان کا مستقبل رہا۔ ہر سندھ واسی کی طرح وہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مداح لیکن ان کی فکر کی سائنسی تشریح کے قائل تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ” ہمیں صرف شاہ عبدالطیف بھٹائی تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وسیع میدان کی طرف جانا چاہیے۔“
سائیں عطا محمد بھنبھرونے 2012 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ ”ستارہ امتیاز“لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ انھوں نے اُس وقت معروف سندھی روزنامہ” عوامی آواز “سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ” سندھ تکالیف اور مشکلات کا شکار ہے ، اور غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ سندھ کے اصل ہندو باشندے یہاں سے ہجرت پر مجبور ہیں ۔ ان حالات میں مجھے یہ ایواراڈ لینا مناسب نہیں لگتا ۔“کچھ عرصے بعد انھوں نے”ریڈیو وائس آف سندھ ،لندن“ سے گفتگو کے دوران اسی حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ” میں غلام دھرتی کا غلام فرزند ہوں اور سندھو دیش کا حامی ہوں پاکستان سے کیسے ایوارڈ لے سکتا ہوں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے ہندو سندھی بھائیوں کو زبردستی مذہب کی تبدیلی اور جبری طور پربھارت جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، سندھ مشکل حالات سے دوچار ہے ۔“
اس واقعہ کے تقریباً تین سال بعد جون 2015میں انھیں اپنے جوان بیٹے راجہ داہر( جن کا نام عرب بیرونی حملہ آور محمد بن قاسم کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہونے والے سندھی حکمران راجہ داہر کے نام پر رکھا گیا تھا) کی جبری گمشدگی اور پھر تشدد زدہ لاش ملنے کے سانحے سے گزرنا پڑا۔ راجہ داہر کا تعلق سندھ کی ایک قوم پرست تنظیم ” جئے سندھ متحدہ محاذ“(جسمم)سے تھا جس نے سندھ میں گوریلا جنگ کا ایڈونچر کیا جس کے نتیجے میں اس کے متعدد رہنما اور نوجوان کارکن جبری گمشدگیوں کا شکار بنے جن میں سے بیشتر کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ 4جون2015کو ان کے بیٹے کو گاؤں کا محاصرہ کر کے اٹھا لیا گیا جس کے بارے میں سائیں عطا محمد بھنبھرو نے BBCاردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ” ان کا بیٹا کبھی مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہیں رہا بلکہ وہ ایک سنجیدہ قوم پرست سیاسی کارکن ہے اور اس پر کوئی مقدمہ بھی درج نہیں۔“ انھوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ” ان کے نوجوان بیٹے کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا جائے گا یا تشدد میں ہلاک کرکے مسخ شدہ لاش پھینک دی جائے گی، جیسے اس سے پہلے بھی قوم پرست کارکنوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔“ ایک ماہ بعد ان کے یہ خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب نوری آباد کے قرب سپر ہائی وے سے ان کے بیٹے کی تشدد زدہ لاش ملی۔ ۔ سائیں نے سندھی روایات کے مطابق اپنے بیٹے کی تعزیت وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا وطن کی آزادی کا شہید ہے، میں اس کی فاتحہ قبول نہیں کروں گا۔ بعد میں انھوں نے ”ریڈیو وائس آف سندھ ،لندن“ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے سیاسی ساتھیوں کو ان کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”راجہ داہر کی شہادت سازش تھی ۔ وہ سندھ کی آزادی کی جنگ سائنٹفک انداز سے لڑنا چاہتا تھا ،وہ لفاظی کرنے والوں کی بجائے پریکٹیکل آدمی تھا۔۔۔۔ وہ پوسٹ گریجویٹ تھا ۔اس نے قومی آزادی کی تحریکوں اور گوریلا جنگوں کا وسیع مطالعہ کر رکھا تھا اور سائنٹفک اپروچ رکھتا تھا ۔اس نے جو کیڈر تیار کرنا چاہا اس سے اس کی پارٹی کی ان پڑھ قیادت خوفزدہ تھی ۔“
اب آتے ہیں سائیں عطا محمد بھنبھرو کی وصیت کے نکات کی جانب، جنہیں بنیاد بناتے ہوئے آج کے ” صالحین“ کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں ۔سائیں عطا محمد بھنبھرو خرد افروزی، عقلیت پسندی اور سیکولر ازم میں یقین رکھتے تھے ۔ انھوں نے جہانِ فکر ودانش کے کتنے ہی شہہ پاروں سمیت چارلس ڈارون جیسے مفکر کا نظریہ ارتقا نا صرف گھول کرپیا تھا بلکہ ڈارون کی دنیائے فکر میں انقلاب اور عقائد کی دنیا میں بھونچال برپا کر دینے والی تاریخی کتاب Origin Of Species کو سندھی زبان کے قالب میں بھی ڈھالا تھا ۔وہ مذہب اور خدا کے قائل نہیں تھے۔ البتہ وہ عقیدے کو ہر کسی کا ذاتی معاملہ سمجھتے تھے ، ان کی زندگی میں کبھی ان پر یہ اتہام وارد نہیں رہا کہ انھوں نے کسی کے عقائد کامذاق اڑایا ہو یا توہین کی ہو ۔ باقی اپنی وصیت میں کسی مذہب کو سچا نہ سمجھنا اور مذہبی رسومات کی ادائیگی سے اپنے عزیزوں ،دوستوں کو منع کرنا ان کا بنیادی انسانی حق تھا ۔ انھوں نے اپنے نظریات کو کبھی ملفوف صورت میں پیش نہیں کیا ،نا ہی انھیں منافقت کی دبیز چادروں سے چھپانے کی کوشش کی۔
سائیں عطا محمد بھنبھرو جیسے سائنسی فکر ونظر کے حامل انسان سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ مرنے کے بعد مرنے والی کی آخری رسومات اور تدفین کس طرح ادا ہوتی ہیں اور اس کی قبر کس طرح بنتی ہے وہ اس سے بے نیاز ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی لاش کو قبر میں سینے کے بل رکھنے، تاکہ سینہ سندھو ماتا کی چھاتی سے مل سکے اور اس کے ہونٹ اپنی سندھو ماتا کے اس وقت تک بوسے لیتے رہیں تاوقتیکہ خاک ہو جائے،کی وصیت کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنی دھرتی ماں سے بے پناہ محبت کا احساس اور زندہ رہ جانے والوں کے لیے وطن پرستی کا پیغام ہے۔
سائیں عطا محمد بھنبھرو بے مقصد نہیں جیئے ،وہ جیون پرست تھے بامقصد زندگی پر یقین رکھتے تھے ،سو اپنی موت کو کیسے بے مقصد جانے دے سکتے تھے ۔ اسی لیے اپنی قبر کو زنجیروں میں جکڑنے ، ان پر قفل لگانے تاوقتیکہ کی ان کی سندھو ماتا آزاد ہوجائے کی وصیت کر گئے کہ ان کی بھاری زنجیروں میں جکڑی قبر اور اس کے کتبے پر یہ تحریر کہ” یہاں سندھ دھرتی ماتا کی مٹی کا ایک غلام دفن ہے ۔ اس کی قبر سندھو ماتا کے آزاد ہونے تک زنجیروں میں جکڑی رہے گی ۔“نا صرف اہلِ سندھ بلکہ خطے سمیت دنیا بھر کی مظلوم ومحکوم قوموں کو جدوجہد اور آزادی کا الہام بخشتے ہوئے یہ پیغام دیتی رہے گی کہ بعد از مرگ بھی مزاحمت اور احتجاج کا استعارہ بنا جا سکتا ہے
زنجیروں میں جکڑی سائیں عطا محمد بھنبھرو کی یہ قبر دنیا کے ضمیر پر، امن ، آزادی اور مساوات پر یقین رکھنے والی ترقی پسند انسانیت کے سامنے بھی ایک سوالیہ نشان کے طور پر موجود رہے گی ۔ تاوقتیکہ سائیں عطا محمد بھنبرو کا وطن ان کے آدرشوں کی روشنی میں دنیا کے سامنے اس صورت میں سامنے آئے جس کے متعلق وہ خود کہہ گئے ہیں کہ ” ہم موجودہ سندھ کے جغرافیے کو سندھو دیش سمجھتے ہیں ، وہ آزاد سندھ ہو گا ۔ وہ اہنسا کا قائل سندھ ہو گا جس کی کوئی فوج نہیں ہو گی ، جہاں صرف بنی نوع انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار کے زندہ رہنے کی ضمانت ہو گی۔“
آئیے اس سرکش اور باغی روح کے حضور احترام بھرا سر جھکائیں جو عظیم سندھو کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔