تسلسل کامیابی کی ضمانت
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انقلابی عمل سب سے بہترین استاد ہے، یہ نسلوں کو تیار کردیتی ہے، پھر جدوجہد فرد، ذات، خاندان قبیلہ سے بالاتر ہوکر قوم کے نئی نسلوں کی امانت بن جاتی ہے۔ انقلابی عمل جلاتی ضرور ہے لیکن اسی بھٹی میں تپ کر نسلیں کندن بن جاتی ہیں۔
دنیا میں جہاں کہیں جدوجہد ہوئی وہاں رد آزادی قوتوں نے مایوسی بکھیرنے کی مکمل کوشش کی لیکن انقلابی عمل کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ مایوسیوں کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جبر کو جواز بنا کر جدوجہد کو ترک کرنے کی باتیں کرنا تاریخی شعور سے لاعلم ہونے کا واضح ثبوت ہے کیونکہ جدوجہد ہوتی ہی جبر کیخلاف ہے۔ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ جبر کی عدم موجودگی میں کسی جدوجہد نے جنم لیا ہو بلکہ جہاں جبر ہوا وہاں جدوجہد بھی ہوئی اور وہیں جدوجہد کامیاب ہوئی جس نے جبر کے خونی پنجوں کو اکھاڑ پھینکا۔
میں اس سوچ پر حیران ہوں جو مصلحت پسندی کے ذریعے کسی غلام قوم کی روشن مستقبل کا امید رکھتے ہیں، جو جدوجہد کی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے تاریخی عمل میں ذہنی مشت زنی کے زریعے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
لیون ٹراٹسکی نے کیا خوب کہا تھا کہ “ممکن ہے آپ کو جنگ میں دلچسپی نہیں لیکن جنگ کو آپ میں گہری دلچسپی ہے۔” پھر جب بات نوآبادیاتی جنگ کی ہو تو اس سے کوئی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
چلیں بطور مفروضہ گھڑی کی سوئی کو پیچھے گھما کر موجودہ احیاء سے پہلے کا تصور ذہن میں لاتے ہیں۔ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے بلوچ کو اکسایا؟ کیا یکدم بلوچ اٹھ کھڑے ہوئے اور ریاست نے رد عمل کے طور پر تشدد کا راستہ اپنایا؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ جنگ ریاست نے ہی شروع کی ہے اور یہ جنگ ختم صرف ہم اس صورت میں کرسکتے ہیں جب نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔
1948 سے لے کر آج تک کتنی مرتبہ اٹھتے گرتے بلوچ نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار ہے اور نسل در نسل چلنے والی یہ تحریک وقت کیساتھ مزید پختہ ہوتی جارہی ہے۔
کامیابی کا تعین صرف ظاہری طور پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے تاریخی عمل کے تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے حقائق کی چھان بین لازمی ہے۔
بلوچ جدوجہد کی سب سے بڑی کامیابی اس کا تسلسل ہے، دشمن کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اس تسلسل کو نہیں توڑ سکا۔ محدود وسائل کے باوجود آہنی حوصلے لے کر جو جدوجہد کی تاریخ بلوچ حریت پسند جہدکار رقم کررہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ نظریئے کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتا۔ کمزوریاں و کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن بلوچ قومی تحریک خود کو ایک ابھرتے قوت کے طور پر منوا چکی ہے۔
جس عظیم سوچ کیساتھ رہبر استاد اسلم نے تحریک کو از سر نو سمت فراہم کیا آج اس کے اثرات سب کے سامنے ہیں۔ وہ شعور کی پختگی جو تحریک کے کامیابی کے لیے اپنا سب کچھ داو پر لگا کر ایک ایسی اساطیری مثال قائم کرگئے جس نے کافی حد تک خوف کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔
وہ تحریک جو آپسی رنجشوں کا جمگھٹا بن چکا تھا اسے ایک انقلابی سمت فراہم کرنا ایسے ہی عظیم قربانی کا متقاضی تھا۔ ایک طرف ریحان جان تھا، اپنا خاندان تھا، انفرادی سوچ تھی لیکن دوسری جانب نسلوں کا سوال تھا، استاد نے شعور کا قرض چکاتے ہوئے انقلابی عمل کو مزید اگے بڑھایا۔
آج انقلابی عمل میں وہ منفی رجحانات بہت کم ہوچکے ہیں جو کبھی سنجیدہ کرداروں کے لیے پریشانی کا باعث تھے، جن کے باعث انقلابی عمل بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ اب بلوچ مزید پختہ ہوچکے ہیں، شعوری طور پر متحد و منظم ہوچکے ہیں۔
اب بلوچ کا ہدف علاقائی و فکری مخالفین سے بالاتر نوآبادیاتی نظام ہے۔ اب بلوچ سیاسی کارکن کی جدوجہد کا محور “بلوچ و بلوچستان” ہے۔ آج بلوچ جہدکاروں کے درمیان نفرت کی کوئی لکیر نہیں، استاد نے وہ ساری لکیریں مٹا دیں جن سے جدوجہد کو نقصان پہنچا، آج ہمارے درمیان اتحاد و یکجہتی کا پیغام ہے۔
جدوجہد جاری ہے، پہاڑوں پر، زندانوں میں، سڑکوں پر، پریس کلب کے آگے۔۔۔ کسی نہ کسی صورت میں اظہار ہورہا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچ اپنے جدوجہد کو منتقی انجام تک پہنچانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
دشمن اگر سمجھتا ہے کہ وہ جبر کے ذریعے بلوچ جدوجہد کو ختم کرسکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہوگی کیونکہ جبر جتنا زیادہ ہوگا مزاحمت میں اتنی ہی پختگی آئیگی۔
ایک بہت بڑی طاقت کے خلاف لڑنا بلوچ قوم کا اعزاز ہے۔ بلوچ قومی تاریخ اس بات کی گواہ رہیگی کہ بلوچ گلزمین کے جہدکار فرزندوں نے سخت سے سخت حالات میں بھی ریاست کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے بغاوت علم بلند کیا۔
آنے والے دور میں ریاست کا جبر بلوچ نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کو مجبور کردیگا کہ وہ شعوری فیصلہ کرتے ہوئے انقلابی عمل کا حصہ بن جائیں اور اس طرح جدوجہد مزید مستحکم ہوتی جائیگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔