بلوچستان میں معروضی حقائق کے برعکس ایچ ای سی کی تعلیمی پالیسیاں تشویشناک ہے – بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس

182

آن لائن کلاسز کے خلاف کوئٹہ سمیت 20 شہروں میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام احتجاجی مظاہرے منعقد ہونگے. بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھرپور شرکت کرکے بلوچ طلبا کا مقدمہ لڑے گی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کی جانب سے آن لائن کلاسز کے خلاف کوئٹہ پریس کلب میں سہ روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ کے پہلے روز طلباء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کرکے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔

اس احتجاجی کیمپ سے مقررین نے آن لائن کلاسز کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور انٹرنیٹ سے محروم دیگر علاقہ جات کے معروضی حقائق کے برعکس ایچ ای سی کی تعلیمی پالیسیاں تشویشناک ہیں۔

مظاہرین نے بتایا بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کی پالیسی روز اول سے واضح ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس نے پہلے کراچی میں بھوک ہڑتالی کیمپ منعقد کیا اور اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں احتجاجی کیمپ منعقد کئے اور طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لئے احتجاجی ریلی کا بھی اہتمام کیا گیا لیکن چیئرمین ایچ ای سی، وزیر تعلیم اور اعلیٰ حکام نے اب تک طلباء کے حق میں کوئی قابل ذکر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے طلباء سراسیمگی کے عالم میں مبتلا ہیں۔

آن لائن کلاسز کے فیصلے کیخلاف ضلع کیچ سمیت دیگر علاقوں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کے معطلی کی وجہ صوبے کی امن امان کی بحالی بتائی جاتی ہے لیکن آج یہ مسئلہ طلباء کے لئے بھیانک صورت اختیار کر گیا ہے کیونکہ طلباء کے آنلائن کلاسز جاری ہیں اور طلبا کی کثیر تعداد اپنے آبائی علاقوں میں انٹرنیٹ کے معطلی کی وجہ سے کلاسز لینے سے محروم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے طلبہ و طالبات ایچ ای سی کو اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرچکے ہیں اور چارٹر آف ڈیمانڈ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں مگر موجودہ تعلیمی پالیسیوں کے پیش نظر ہم تعلیم سے محروم ہیں۔

دریں اثناء بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے حکم نامے کے مطابق تمام جامعات آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیمی سال کو آگے بڑھائیں گے جسے ہم حقیقت کے منافی سمجھتے ہوئے رد کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہاں انٹرنٹ تو درکنار پچاس فیصد سے زائد آبادی بجلی کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہے جبکہ جہاں کوئی چھ آٹھ گھنٹے کی بجلی دستیاب ہے وہاں سیکیورٹی رسک کے بہانے انٹرنٹ سروسز باقائدہ بند کر دیئے گئے ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے درماندہ طلباء جدید سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ خریدنے کی مالی سکت سے بھی محروم ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بلوچستان کے طول و ارض میں رہائش پذیر طالب علم جدید تکنیک سے استفادہ حاصل کرسکے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 23 جون کو کوئٹہ سمیت ملک بھر کے 20 سے زائد شہروں میں اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے بینر تلے احتجاجی مظاہرے منعقد کیئے جارہے ہیں۔