بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3952 دن مکمل ہوگئے۔ اوتھل سے سیاسی و سماجی کارکن رحمت اللہ بلوچ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما پاکستان کی ظلم و جبر کے سیاہ اور طویل راتوں کی تاریخ کے اوراق انگنت معلوم و نامعلوم وحشت ناک مظالم کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے کئی ایسی تاریک راتیں ہمارے حصے میں پڑی ہیں جہاں اسد مینگل، احمد شاہ جیسے نوجوانوں کی پیشانیوں کو بنا کسی شکن کے پاکستانی ریاست کی گولیوں کا سامنا رہا تو کبھی انہی تاریکیوں کی آڑ میں نوجوانوں کی لاشوں کو کھمبوں اور درختوں سے لٹکایا گیا اور کبھی ڈرل کرکے آنکھیں نکال لی گئی۔ مرگاپ ہی کے سپوتوں کی لاشوں کو اسی دامن میں بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے لاکر پھینک دیا گیا۔
ماما قدیر نے کہا کہ زیروں پوائنٹ کی سڑکوں سے لیکر پنجگور کے میدان تک، مرگاپ سے لیکر شیراز کی وادی تک بلوچستان کے گلی کوچے ان تاریک راہوں پر مارے گئے، جو معصوم چہروں کے گواہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں ان تمام ہیروز کی طرح وہ بھی انسانیت کے لیے لڑی جانے والی مقدس جدوجہد کے حقیقی ہیرو ہیں جس کا تسلسل صدیوں سے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ شہدا نے خود گمنامی کی کی زندگی بسر کرتے ہوئے گمناکی کے موت کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا مگر دنیا کی تاریخ میں اپنے قوم اور زمین کو گمنام موت مرنے نہیں دیا۔