کرونا کے ساتھ رہنا سیکھیں
تحریر: احمد علی کورار
دی بلوچستان پوسٹ
سال گذشتہ کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے سر اٹھانے والے نمونیہ طرز کے وائرس نے دنیا کی ہیئت ہی بدل ڈالی۔ ابتداء میں اسے معمولی زکام کھانسی سمجھا گیا۔ بعد ازاں یکے بعد دیگرے نمونیہ طرز کے وائرس نے انسانوں سے قربت بڑھا لی تو طبی محقیقین نے اس وائرس کی تصدیق کی۔ اس وقت ایسے شواہد نہ تھے کہ یہ وائرس انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ رواں سال گیارہ جنوری کو اس وائرس کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی گئی۔ جس کی چینی حکام نے تصدیق کی۔ ہلاک ہونے والے شخص کے متعلق یہ بات سامنے آئی کہ اس شخص کا تعلق اس مارکیٹ سے تھا، جہاں اس وائرس کے پنپنے کے سراغ ملتے ہیں۔ یہ پیش رفت اس وقت منظر عام پر آئی جب سالانہ چھٹیوں کے لیے لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں۔
جنوری کے وسط میں عالمی ادارہ صحت نے پہلی رپورٹ جاری کی اور بیس جنوری کو جنوبی کوریا، جاپان اور تھائی لینڈ میں اولین کیسز رپورٹ ہوۓ۔
اسی ماہ ووہان سے امریکہ جانے والے شخص میں وائرس کی تشخیص ہوگئی اور یوں اکیس جنوری کو امریکہ میں پہلا کیس نمودار ہوا۔
گیارہ ملین کی آبادی والے شہر ووہان میں تیس جنوری کو سخت لاک ڈاٶن نافذ ہوا یوں پورا شہر مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ اس وقت تیس لوگ وائرس سے جان کی بازی ہار چکے تھے۔ تیس جنوری کو عالمی ادارہ صحت نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوۓ صورتحال کو” گوبل ہیلتھ ایمرجنسی” قرار دیا۔ دو فروری تک چین میں ہلاکتوں کی تعداد 360 ہو چکی تھی۔
عالمی ادارہ صحت نے گیارہ فروری کو پھیپھڑوں کی اس بیماری کانام کووڈ انیس بتایا۔ اس وقت چوبیس ملکوں میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی تھی۔ وائرس بڑی آب وتاب سے پھیلتا گیا اور انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا گیا اور اس وقت بھی یہی روش اختیار کیا ہوا ہے۔
یورپ میں پہلی ہلاکت چودہ فروری کو ہوئی، ہلاک ہونے والا شخص فرانس میں موجود تھا اور چینی سیاح تھا۔ پاکستان میں کووڈ انیس کا پہلا کیس چھبیس فروری کو سامنے آیا۔ ایران سے کراچی لوٹنے والے ایک طالب علم میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔ پاکستان میں اٹھارہ مارچ تک چاروں صوبوں میں کیسز سامنے آچکے تھے۔
کورونا وائرس تیزی سے دنیا میں پھیلتا گیا، مشرق وسطی لاطینی امریکہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے، ابتدا میں اٹلی میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے وائرس یورپ میں بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا اور انتیس فروری کو امریکا میں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ یوں امریکا کا پورا نظام زچ ہو کر رہ گیا اور تیرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔
بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گیر سطح پر لاک ڈاٶن نافذ کر دیا۔ یورپی یونین نے بلاک سے باہر تمام مسافروں کے لیئے یورپ میں داخلہ بند کر دیا۔ دو اپریل تک 171 ملکوں میں کرونا کی تصدیق ہو چکی تھی۔
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد چار ملین سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تین لاکھ سےمتجاوز ہے۔ انفیکشنز میں مسلسل اضافے کے باوجود دنیا کے حصوں میں بندشوں میں بتدریج نرمیاں جاری ہیں۔ معاشی طور کمزور ممالک طویل بندشوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو طویل مدت تک رہنے کے آثار بتائے ہیں اور یہاں تک کہنا پڑا کہ شاید یہ ایڈز کی طرح باقی رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانوں کو وائرس کے ساتھ رہنا ہوگا ویکسین آنے تک ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہو گا۔
ہم نے دیکھاکہ وائرس کے تیز پھیلاٶ نے مختصر وقت میں دنیا کی ہیئت ہی بدل ڈالی اور آج دنیا کہاں کھڑی ہے۔ یہ بات بعید از گماں تھی کہ ایسا ہو گا۔ دنیا اس سے بے خبر تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔