کارل مارکس کے سائنسی افکار – عاصم اخوند | مشتاق علی شان

263

کارل مارکس کے سائنسی افکار

 تحریر : عاصم اخوند 

ترجمہ : مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ساری سرمایہ دار دنیا نے یہ پروپیگنڈا تیز کردیا کہ اب دنیا میں طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ ہوگیاہے اور مارکسزم کے نظریات قصہ ء پارینہ بن چکے ہیں، ایک مفکر فوکویاما نے تو تاریخ کے خاتمے کا اعلان بھی کر ڈالا، تاریخ کے خاتمے سے اس کی مراد یہ تھی کہ اب سرمایہ داری کے اندر موجود تضادات جمہوری عمل سے حل ہوتے رہیں گے اور یہی وجہ ہے کہ اب انقلاب یا جنگ کے امکانات ختم ہو چکے ہیں، مگر کچھ ہی عرصے میں بورژوا دانشوروں کے سارے خواب خود سرمایہ داری کی بے رحم منطق نے چکنا چور کر دیے۔ یعنی سرمایہ داری کے اندر معاشی بحران کے نتیجے میں عراق، افغانستان، پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک جنگ کی لپیٹ میں آگئے اور توانائی کے ذرائع تیزی سے عام لوگوں کی پہنچ سے نکلتے جارہے ہیں۔ خود سرمایہ دارانہ نظام کی منطق نے یہ بات واضح کر دی کہ سرمایہ داریت کی حقیقی تشریح صرف وہی نظریہ دان کرسکتے ہیں جو اس نظام کی تفسیر اس نظام کو آفاقی بنا کر نہیں بلکہ ایک دم توڑتے نظام کی حیثیت سے کرتے ہیں۔

پانچ مئی کو جرمنی میں پیدا ہونے والے مفکر کارل مارکس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے اس سرمایہ دارانہ نظام کی تفسیر ایک زندہ جسم کی طرح کی ۔یعنی ایک زندہ جسم مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اپنی موت کی طرف بڑھتا ہے۔بوروژا معیشت دان سرمایہ دارانہ نظام کی مختلف شکلوں کو آفاقی سمجھتے تھے۔ یہ مارکس کا کمال تھا کہ انھوں نے جدلیاتی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر سوشلسٹ نظام کے پیدا ہونے والے عوامل کی نشاندہی کی۔ یعنی کہ مارکس نے سرمایہ کو مردہ محنت کااظہار سمجھا جو ذاتی ملکیت کی حیثیت سے زندہ محنت کا استحصال کرتی ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس کی وجہ سے زندہ محنت مردہ محنت کے اقتدار کی جڑیں اکھاڑ پھینکے گی۔

کارل مارکس کے فکری جنم میں تین بنیادی تحریکوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک طرف جرمن فلسفے کی تحریک تھی، جس نے مارکس کو جدلیاتی اندازِ فکر سے آشنا کیا، دوسرا مارکس کے دور میں بورژوا علم اقتصادیات نے بطور سائنس خودکو منوایا اور تیسری طرف ایک ایسے طبقے کا ابھار جس کے پاس ملکیت کی کوئی شکل نہ تھی۔ مارکسزم ان تین فکری اور سیاسی تحریکوں کی پیداوار ہے، مارکس نے ان تین دھاروں کو ایک نئے انداز سے یکجا کیا۔

مارکس کے فلسفیانہ نقطہ نظر کی پیداوار میں ہیگل کے خیالی جدلی انداز فکر کے معاشی علم او ر کمیونسٹ سیاسی تحریک کی بنیاد سے تنقیدی عمل کارفرما تھا۔ ہیگل نے اپنے فلسفیانہ نظام میں کسی بھی حقیقت کے خیال (Idea) کا جدلی مطالعہ پیش کیا۔ مثلاً سیاسیات کے مطالعے میں ہیگل نے جس حقیقت کو سب سے پہلے بنیاد بنایا ہے وہ ’’حق‘‘ (Right) کا خیال ہے۔ مارکس نے اس فلسفے میں خامی یہ دیکھی کہ یہ فلسفہ انسان کے معاشرتی مادی عمل کو تجرید (Abstraction) میں تبدیل کردیتا ہے اور اسی وجہ سے حقیقی معاشی عمل کی تبدیلی کا عمل ممکن نہیں رہتا۔ مثلاً اگر ہم پاکستان میں جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو ایک ہیگلی فلسفی کے لیے سب سے زیادہ اہمیت جمہوریت کے اصولوں سے عوام کی آشنائی ہے مگر ایک مارکسی کے مطابق فوجی آمریت کے معاشی مفادات کو ختم کیے بغیر پاکستان میں جمہوری سلسلہ عملی طور پر ممکن نہیں۔ یعنی کہ عینیت پسند نقطہ نظر حقیقی مادی عوامل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اصولوں کی ترویج پر ہی اکتفا کرتا ہے، جبکہ ایک مادیت پسند سماج کی معاشی سیاسی تبدیلی کے بغیر اصولوں کی ترویج کو ایک غیر سائنسی حقیقت سمجھتا ہے۔

مارکس نے اسی مادیت پسند نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے یہ کہا کہ ’’آج تک جرمنی کی تاریخ لکھی نہیں گئی‘‘۔ اس سے مارکس کی مراد یہ تھی کہ تاریخ کے مطالعے میں اکثر جرمن نظریہ دان جس طریقہ کار کو اپناتے ہیں اس میں وہ ہر دور کو کسی نہ کسی خیال کا اظہار سمجھتے ہیں مگر وہ حقیقی معاشی عوامل یعنی زمین کی کاشت کے عمل ، صنعتی نظام کی ترقی، بحریہ وغیرہ کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ یعنی حقیقی انسانی تاریخ انسان کے ہاتھوں اس دنیا کی مادی تبدیلی کی تاریخ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج تک پاکستان کے پاس کوئی ٹھوس مادی بنیادوں پر لکھی ہوئی تاریخ موجود نہیں ہے۔

مارکس نے جرمن فلسفے کے جس پہلو کو سب سے زیادہ اہمیت دی، وہ اس کا جدلیاتی طریقہ کار تھا ۔ جدلیات بنیادی طورپر کسی بھی حقیقت کو ساکن نہیں بلکہ اس کو متحرک اور زندہ سمجھتی ہے۔ آج تک بورژوا معیشت دان مارکس کی کتاب’ ’سرمایہ‘‘ کو اسی وجہ سے سمجھ نہیں سکے کیونکہ اس میں سرمایہ داریت کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے جدلی انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ جدلیاتی انداز فکر ہر حقیقت میں موجود تضادات ٹکراؤ اور اکائی کو تبدیلی کا بنیادی ماخذ سمجھتا ہے۔

کارل مارکس نے اسی جدلیاتی فکر کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام میں اس کے منفی عمل کو ڈھونڈ نکالا۔ اُس دور میں اُبھرنے والی کمیونسٹ تحریک نے جو مزدور طبقے کی ابتدائی آواز تھی، مارکس کی توجہ اُس طبقے کی طرف مبذول کی جو ذاتی ملکیت یا مجموعی طور پر ملکیت کی ہر شکل سے محروم تھا۔ مارکس نے سائنسی بنیادوں پر یہ ثابت کیا کہ سرمایہ داری سے یہ ممکن نہیں تھا کہ طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو سکے کیونکہ سرمایہ داری ہی وہ نظام ہے جو نہ صرف اپنے خلاف ایک طبقے کو جنم دیتی ہے بلکہ وہ ایک ایسے نئے طبقے یعنی پرولتاریہ کو جنم دیتی ہے جو ہر قسم کی ذاتی ملکیت کی نفی ہے۔ آج سائنسی اور تکنیکی انقلاب اور انفار میشن ٹیکنالوجی کے ظہور کے بعد متعدد بورژوا مفکر کہتے ہیں کہ پرولتاریہ صنعتی دور کا مظہر تھا اور اب اس کا وجود ختم ہو چکا
ہے۔ مگر مارکس نے یہ واضح کیا تھا کہ صنعتی دورپر ولتاریہ کے جنم کے حالات پیدا کرتا ہے اور خود پر ولتاریہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس اپنی قوت محنت بیچنے کے سوا اور کوئی ملکیت نہ ہو۔ آج بھی کمپیوٹر پر ذہنی محنت کرنے والے پر ولتاریہ ہی ہیں، کیونکہ اُن کہ پاس ذاتی ملکیت کی کوئی شکل موجود نہیں ہے۔ مارکس کا یہ کمال تھا کہ انھوں نے ذاتی ملکیت اور طبقاتی نظام کے خاتمے کو مزدور طبقے کی صورت میں ایک حقیقی امکان کے طور پر دیکھا۔

مارکس نے اپنے معاشی تجزیے کو فلسفیانہ جدلی مادی انداز فکر اور مزدور طبقے کی ذاتی ملکیت کے خلاف لڑائی کی بنیاد پر رکھا۔ آج تک بورژوا ماہر اقتصادیات محنت کو سرمائے کی بنیادماننے سے انکار کرتے ہیں اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر مارکس اس سرمایہ داری دور کا ہی نہیں، بلکہ اس نظام کی نفی یعنی سوشلزم کا داعی ہے۔ آج کے نیو لبرل ماہر اقتصادیات صرف آزاد منڈی کی بات کرتے ہیں، یعنی ایک ایسی آزاد منڈی جس میں ریاست کے عمل دخل کو ختم کر دیا جائے۔ مگر مارکس نے اُس دور میں یہ واضح کیا تھا کہ سرمایہ داروں کے پاس آزاد منڈی کا مطلب مزدور طبقے کا آزادانہ استحصال ہے۔ یعنی کہ آج کی نیولبرل اقتصادیات ایک بھونڈی اور جھوٹی سائنس ہے جو صرف منڈی کے عمل کو ہی نظر میں رکھتی ہے۔ ایڈم سمتھ اور ریکارڈ و دو ایسے بورژوا ماہر معاشیات تھے جو پیداوار کے عمل میں قدر محنت کو سمجھنے کی طرف آمادہ تھے۔ مگر ان دونوں کے بعد معاشیات کے ماہر قدرِ محنت کی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں، کیونکہ اس سے سرمایہ داری کی استحصالی حقیقت اور اس کی موت کی نشاندہی ہو رہی تھی۔

کارل مارکس نے قدر محنت کے نظریہ کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ سرمایہ قوت محنت کا اوقات کا رکے طریقہ کار سے استحصال کرتا ہے اور مزدور کو ایک جنس (Commodity) میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں مزدور طبقہ ذرائع پیداوار سے محروم ہونے کی وجہ سے 8 گھنٹوں میں سے 4 گھنٹے قدرِ زائد (Surplus Value) پیدا کرتا ہے جس کا مزدور کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ مارکس نے یہ اہم حقیقت واضح کی کہ سرمایہ دار آپس میں منڈیوں اور ذرائع کی لڑائی میں پیداوار کو اور اس کی تکنیک کو لگاتار ترقی دیتے رہتے ہیں اورنتیجے کہ طور پر پیداوار فراوانی ایک معاشی بحران پیدا کر دیتی ہے۔ یہ بحران متعددسرمایہ داروں کو لے ڈوبتا ہے۔ کیونکہ پیداوار کی فراوانی ،منافع خوری کے سارے امکانات ختم کر دیتی ہے۔

آج کی سرمایہ دار دنیا بھی ایک ایسے ہی بحران سے گزر رہی ہے، اور اس میں ان کے پاس سوائے جنگی جنون کے اور کوئی طریقہ کار نہیں رہا۔

کارل مارکس بے شک انیسویں صدی کے مفکر تھے، مگر آج کی دنیا ان کے افکار کوثابت کر رہی ہے اور یہ اس وقت تک ثابت ہوتے رہیں گے جب تک اس طبقاتی دنیا کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔