دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر | گوادر بندرگاہ
بلوچ کی ماہی گیری اور اس کا پورا عمل ابھی بہت فرسودہ اور ابتدائی ہے۔ پکڑی ہوئی مچھلی کا ایک بڑا حصہ سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے۔ 35 فشنگ گاؤں میں سے صرف دو (گوادر، پسنی) میں فش ہاربر ہیں۔ باقیوں میں اندھیر ہی اندھیر ہے۔ فزیکل انفرانسٹرکچر اور ساحل پر سہولیات کی غیر موجودگی میں مچھلی ابھی تک بے حجاب اور ننگی زمین پہ ہینڈل کی جاتی ہے۔ جہاں ہر قسم کی گندگی پڑی ہوتی ہے اور خراب ہائی جین جلد ہی مچھلی کی کوالٹی خراب کر دیتی ہے۔ اس فوری سڑاند کے نتیجے میں ماہی کا 70 فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ بڑی سائز کا شرمپ اور لا بسٹر دو ایسی اجناس ہیں جنہیں پکڑنے کے فوراً بعد برف میں رکھا جاتا ہے۔ چھوٹی سائز کے شرمپ (کڈی) کو بھی بید کی ٹوکریوں میں برف میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ ماہی گیری کی کشتیوں میں Insulated(پولی سٹرین) کے ڈبے ہوتے ہیں جن میں ”جیرا“ گریڈ کے شرمپ کو رکھا جاتا ہے۔
فش ہاربر پہنچ کر پکڑی ہوئی مچھلی اتاری جاتی ہے اور ”جیرا“ کے علاوہ ساری مچھلی کو نیلامی کے ہال میں فرش پر پٹخ دیا جاتا ہے۔ ڈھیر لگ جاتے ہیں اتارنے اور نیلام کرنے کے دوران۔ طویل دورانیہ (10 سے 30 دن) کے ٹرپ میں پکڑی مچھلی کو جہاز کے تختے پر ہی صاف کیا جاتا ہے۔ یہ طریقے بہت ہی ضیاع والے ہیں۔ قیمتی ماہی کے لیے برف کے سٹوریج کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جب کہ بقیہ ماہی مثلاً پاگاس، ڈول فش، کیٹ فش، سپینش سیل فش، کوئین فش، میکرلرز، مارلنز، اور ٹریولیز کی آنتیں نکالی جاتی ہیں، انہیں چیر پھاڑ کر ان کو نمک لگایا جاتا ہے۔ (ماہی کو خشک کرنا ہمارے ساحل کی ایک بڑی سرگرمی اور ذریعہ معاش ہے) اور تختہ جہاز پر ان کا انبار لگایا جاتا ہے، ماہی کی Curing(نمکی لگا کر خشک کر کے محفوظ بنانا) بہت گندی حالت میں کی جاتی ہے۔ یہ طریقے بہت فرسودہ ہیں، جن کا ترک کرنا بہت ضروری ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فریز کرنے اور پراسیسنگ کی صنعتیں لگائی جائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ اور قیمتی پیداوار حاصل ہو اور اس سیکٹر میں ترقی ہو۔ 1970ء میں پسنی میں سرکار کی طرف سے ایک آئس فیکٹری لگائی گئی، 1976ء میں پہلے پرائیویٹ آئس فیکٹری نے پیداوار شروع کی۔ اب ضلع گوادر میں کل 16 آئس فیکٹریاں ہیں جن میں چھ گوادر میں، ایک سربندر میں، دو جیوانی میں، چار پسنی میں، اور تین اورماڑہ میں ہیں۔ مچھلی کی ترقی یافتہ پراسیسنگ یعنی ڈبوں میں بند کرنا وغیرہ بلوچستان میں کہیں نہیں ہوتی۔
اگر ٹرپ دو سے زیادہ دنوں کا ہو تو عموماً پکڑی ہوئی مچھلی کا زیادہ حصہ سڑی ہوئی شکل میں اتارا جاتا ہے جس کی تقدیر پولٹری کی خوراک بننا ہوتا ہے۔ انہیں کھلی جگہ پر خشک کیا جاتا ہے۔ فارمی مرغی کے لیے پولٹری فارم کے مالکان جو خوراک خریدتے ہیں، ان میں بہت قیمتی مچھلی بھی شامل ہوتی ہے۔
فش ہاربروں اور مچھلی اتارنے کی جگہوں پر غیر ہائجینی حالات کی وجہ سے یورپی ممالک نے مچھلی اور شرمپ کی درآمد بند کر دی۔ یورپی یونین نے 1997 میں صفائی نہ ہونے اور ہائیجین کے حالات کی خرابی کی بنا پر ہماری سمندری درآمدات پر اپنے ہاں پابندی لگا دی۔
بلوچ ساحل پر جون سے ستمبر کے اوائل تک ماہی گیری نہیں ہوتی کہ مون سون کا موسم ہوتا ہے اور سمندر مکمل وجد میں آ جاتا ہے۔ بپھرے پانی کے جوش میں بے چارہ انسان اور اس کا ساز اور سامان سمندر کے لا متناہی پیٹ میں نگل لیے جاتے ہیں، چنانچہ چھٹی۔
ماہی گیری ایک بڑی صنعت کے طور پر ابھر رہی ہے اور مزید پھیل رہی ہے مگر اس کا اصل فائدہ ماہی گیر عوام کو نہیں ملتا۔ مڈل مین فائدے لوٹتا ہے۔ یہ مڈل مین بہت ذلیل حالات پیدا کرتا ہے۔ اس نے ساحلی معیشت کو مکمل طور پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ یہاں اس نے Serfdom (زرعی غلامی) کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ ماہی گیر اور حتیٰ کہ کشتیوں کے مالک بھی غریب سے غریب تر ہوتے جا تے ہیں اور مڈل مین یا سیٹھوں سے قرض لیتے ہیں۔ یہ لوگ مزید محنت کرتے ہیں محض قرض اتارنے کی خاطر۔ مگر قرض ہے کہ بڑھتا رہتا ہے، ضروریات ہیں کہ مہنگی ہوتی جاتی ہیں۔ یہ ادھار دینے والے دلال یا سیٹھ کلمت، شمال بندر اور سومیانی حتیٰ کہ پورے ساحل پر اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ سود والا قرض ہوتا ہے اور جب تک قرض ادا نہیں ہوتا، مقروض پابند ہوتا ہے کہ اپنی مچھلی اسی قرض خواہ کو مارکیٹ ریٹ سے بہت کم قیمت پر فروخت کرے۔ اگر ماہی گیر کا دماغ زیادہ ”خراب“ ہو تو وہ کسی اور سیٹھ یا دلال سے قرض لے کر پچھلے قرض خواہ کا قرض چکا دیتا ہے۔ تب وہ نئے قرض خواہ کو اپنی مچھلی بیچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یعنی اگر وہ چاہے تو مالک بدل سکتا ہے مگر آزاد نہیں ہو سکتا، اپنی تقدیر بدل نہیں سکتا۔ چنانچہ جیٹی میں یہ دلال معمولی قیمت پر ماہی گیر کی مچھلی ہتھیا لیتا ہے۔
نیلام والا دلال فروخت پر 4 سے 5 فیصد کمیشن لیتا ہے۔ تازہ ماہی کے خریدار یا تو مقامی مڈل مین ہوتے ہیں یا پھر کراچی والے۔ نیلامی کے دوران بھی برف استعمال نہیں ہوتی۔ پکڑی ہوئی مچھلی ساحل پر رکھی جاتی ہے جہاں سورج کی شعاعیں اور گردو غبار اس کا حشر کر دیتے ہیں۔ نیلام کے بعد ماہی کو یا تو نمک لگا کر خشک کر دیا جاتا ہے یا فروخت کے خشکی والے علاقوں کی طرف اونٹوں، گدھوں یا پک اپ پر روانہ کیا جاتا ہے۔ (کراچی، کیچ، پنجگور اور آواران) ہر جگہ کوسٹ گارڈ والے تنگ کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں اور مچھلی چھینتے ہیں۔
بلوچستان کی مچھلی کا دس فیصد مقامی طور پر بیچا جاتا ہے جہاں سے مقامی آبادی کا وہ حصہ اپنی ضرورت کی مچھلی خریدتا ہے جو خود ماہی گیری میں شامل نہیں ہے۔ ساحلی بلوچ بڑا ماہی خور ہے، تازہ مچھلی کھاتا ہے۔ سال بارہ مہینے وہ مچھلی ہی کھاتا رہا ہے، عاشق ہے اس پر۔ کبھی کبھار جب مچھلی نہیں ملتی تو دال سبزی کھاتا ہے منہ بسور کر، بڑی کوفت سے۔
مچھلی پورے مکران ڈویژن کو جاتی ہے۔ بقیہ مکران ایک زمانے میں مال کے بدلے مال کے تحت مچھلی لیتا تھا، کھجور لو، مچھلی دو۔ مگر اب تو کرنسی کا، روکڑا کا راج ہے۔
پکڑی ہوئی مچھلی کا 25 سے 35 فیصد پاکستان کے دیگر علاقوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ مچھلی تازہ بھی ہوتی ہے اور خشک قسم کی بھی۔
کراچی یا بیرونی ممالک سے کچھ بزنس مین کھلے سمندر میں مچھلی خریدتے ہیں۔ اس طرح وہ پورٹ اخراجات سے بچ جاتے ہیں۔
بیرونِ ملک مچھلی کی مارکیٹنگ بلوچ نہیں کرسکتے، اس لیے کہ نظریہ پاکستان اور اسلام کو بہت خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا خواہ تازہ مچھلی ہو یا خشک (یعنی سوریں) شکل میں، لازم ہے کہ یہ کراچی جائے اور وہاں سے دوسرے ممالک مثلاً سری لنکا، چین، کوریا، جاپان، سنگا پور، برطانیہ اور امریکہ کو۔ سری لنکا ہماری مچھلی خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے، مگر وہ قیمت بہت کم دیتا ہے۔ (وہاں بکتا ہی کتنا ہوگا کہ ہماری مچھلی کا 43 فیصد حصہ گل سڑ کر مرغیوں کی خوراک بن جاتا ہے)۔
ماہی گیروں کے ہاں سیٹھوں اور دلالوں کے استحصال سے نجات کے لیے کبھی کبھار تنظیمیں بنتی رہتی ہیں مگر یہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے کہ لیڈر شپ قابلِ اعتماد نہیں ہوتی۔ نیز سیٹھوں اور دلالوں کے ایجنٹوں کی طرف سے بھی سازشیں ہوتی رہتی ہیں کہ ایسی تنظیم کاری نہ ہونے پائے۔
سیاسی پارٹیاں تو ”اور“ کاموں سے فارغ نہیں ہیں، وہ ٹریڈ یونین کیا بنائیں گی؟! پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک بھی ”لیڈر زدہ“ حالت سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور اس طرح بلوچستان کی دو اہم صنعتیں (معدنیات اور ماہی گیری) بغیر ٹریڈ یونین کے ہیں۔ قیامت کے دن ہم سب کو لائن پر کھڑا ہونا ہوگا جوابدہی کے لیے۔ جوابدہی بھی نہیں سزا پانے کے لیے۔ ہماری زبانوں سے بڑے بڑے بچھو لٹکے ہوں گے۔
ماہی گیری کے لیے انفراسٹرکچر اور ساحل پر سہولتوں کی کمی نے ہماری ماہی گیری کی صنعت کو اپاہج بنا رکھا ہے۔ تربیت گاہوں کی کمی نے اسے مزید نقصان پہنچایا ہے۔ میرین انجن اور ماہی گیری کے آلات کی کمی نے ایک طرف تو پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے تو دوسری طرف ماہی گیری کو قدامت پرستی، رجعت پسندی، اوہام پرستی، اور پیری فقیری، تعصبات کا شکار اور پیر پرست بنا ڈالتا ہے۔
بلوچ ماہی گیری کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مارکیٹ کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے اتنے بڑے ساحل کی بجائے کراچی کو ہم پہ مسلط کیا گیا ہے جو گوادر سے ایک ہزار کلو میٹر دور ہے۔ جب کہ سڑک ہے ہی نہیں۔ سڑک بنانے سے تو آپ جانتے ہیں کہ بلوچستان کی آزادی کو بہت خطرہ ہے۔ اس ایک ہزار کلو میٹر کے کچے فاصلے کو فرسودہ ٹرک کتنے دن میں طے کرتے ہوں گے اور اس دوران کتنی مچھلیاں ضائع ہوتی ہوں گی، اس کا اندازہ تو ماہی گیر ہی لگا سکتا ہے۔ ایسی سڑک کے نہ ہونے سے ہماری آبادی کو دو طریقے سے نقصان ہوتا ہے: ایک تو یہاں خوردنی سمیت استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کراچی سے دگنی ہیں۔ دوسرا یہ سیٹھ لوگ مچھلی کراچی سے آدھی قیمت پر لے جاتے ہیں۔ لہٰذا ساحلی شہروں کے اپنے درمیان پکی سڑکیں بنائی جائیں اور کراچی کی مارکیٹ کو منسوخ کر کے گوادر اور پسنی سے ڈائریکٹ مچھلی برآمد کرنے دی جائے۔ اس سے ملک پر کوئی کوئی آسمان نہیں گرے گا۔ گوادر سے خلیجی علاقے محض تین گھنٹے دور ہیں جو ماہی کی برآمد کے لیے زبردست مارکیٹ ہیں۔
اورماڑہ، گڈانی، سور، پیشوکان، چاندی، جیوانی اور ہنگول میں جیٹی کی سہولیات سخت ضروری ہیں۔ بلوچ ساحل پر ایک فشریز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا قیام بہت ضروری ہے۔ انتہائی فرسودہ اور بہت پسماندہ بینکنگ کے نام پر نیشنل بینک، حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک، الائیڈ اور مسلم کمرشل بینک کی موجودہ شاخوں کی از سر نو تنظیم کرنی پڑے گی۔ ADBPماہی گیروں کے ساتھ جو کھیل تماشے کرتی آئی ہے، اُسے الٹ دینا ہو گا۔ سمال بزنس کارپوریشن کی تمام تر اخلاقی اور انتظامی دیوالیہ پن کا علاج کرنا ہوگا۔ چوں کہ صنعتی ترقی نہیں ہے، اس لیے آب پاشی کے ذرائع کو ترقی نہیں دی گئی۔ صرف ماہی گیری کو ہی ساحلی علاقوں کے باشندوں کا ذریعہ معاش رہنے دیا گیا۔ یہاں سمال انڈسٹریز سٹیٹس بنائی جائیں۔ ماہی گیروں کی سماجی معاشی حالات میں عمومی بہتری لانا انتہائی اہم ہے۔ بے روزگاری، بے سکولی، بے ہسپتالی، اور بے بسی نے جس پیمانے پر نشہ اور دیگر اخلاقی بے راہ رویوں کو پھیلا دیا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ مچھلی کی ہینڈلنگ، ڈسٹری بیوشن اور مارکیٹنگ کے نظام میں بنیادی تبدیلیوں سے لے کر ماہی گیروں کی تعلیم، صحت اور تفریحی مشاغل کی فراہمی تک کے پورے سلسلہ کو تبدیل کیا جائے۔
کچھ مطالبات
ماہی گیروں کے کوآپریٹوز بنائے جائیں۔
سمندری خوراک پیکنگ اور پولٹری کے خوراک(Fish Meal)پلانٹس لگائے جائیں۔
فش لینڈنگ جیٹی یا چھوٹے ہاربر جگہ جگہ بنائے جائیں۔
ماہی گیروں کی کشتی میں لائف جیکٹس ہونی چاہئیں۔ ان میں طویل فاصلے کا ریڈیوریسور یا ٹرانس میٹر ضروری ہے جس کے ذریعے موسم کی اطلاعات اور متعلقہ حکام کی طرف سے دوسری ہدایات موصول کی جائیں۔ اس سے سمندر میں امداد پہنچانے والی ایجنسیوں کو بلایا جاسکے گا۔
تمام لانچوں، ٹرالرز اور جہاز پر فائر فائٹنگ اور نقصان کو کنٹرول کرنے والے تمام آلات کا ہونا ضروری ہو۔ علاوہ ازیں سمندر میں پیش آنے والے ہر حادثے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی کے تقرر کے بارے میں قوانین بنائے جائیں جو حادثوں کی روک تھام میں بھی کام آسکیں۔
جس سرکاری محکمے کے ذمے کسی زندگی کو بچانے کی کارروائی کرنا ہو تو اس کے سربراہ کو ذمے دار ٹھہرایا جائے اور اس کے خلاف محکمہ جاتی یا قانونی کارروائی کو ضروری مانا جائے۔
مختلف ابلاغ کے ذریعوں کو پبلسٹی کی مہم چلانی چاہیے تاکہ عوام میں سمندر کے سفر کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت کا شعور پیدا ہوسکے۔ ماہی گیروں اور مال بردار یا مسافر برادر کشتیوں اورفشنگ ٹرالرز کے ملاحوں کی حفاظت کا شعور اور اپنی جان بچانے کے ضروری اقدامات کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے، انہیں مالکوں اور ٹریڈ یونینوں کو زور دینا چاہیے کہ وہ تمام کشتیوں میں جان بچانے والے اقدامات کے انتظامات مکمل کریں ورنہ ان انتظامات کے بغیر وہ کشتیاں باہر نکالنے سے انکار کردیں۔
کشتی کے نا خداؤں اور عملے کو جان بچانے والے اور آگ بجھانے والے آلات کو درست رکھنے اور انہیں صحیح طور پر استعمال کرنے کی تربیت دینے کے لیے خصوی تربیتی سکول کھولے جائیں تاکہ ان بہت سی قیمتی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے جو معلومات نہ ہونے یا توجہ نہ دینے سے ضائع ہوجاتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔