ساجد حسین کی موت نے گہرے صدمے سے دوچار کیا – خلیل بلوچ

222

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ لاپتہ جلاوطن بلوچ صحافی ساجد حسین کی موت نے ہمیں گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے۔ یہ ہمارے لئے ناقابل تلافی قومی نقصان ہے۔ سویڈش پولیس اور اختیار داروں نے ہمیں شدید مایوس کیا ہے۔ ساجد حسین کی موت نے ہزاروں جلاوطن بلوچوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ مہذب کہلائے جانے والے ملک میں بھی ستم رسیدہ بلوچوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم ”رپورٹر وِد آؤٹ بارڈر“ نے ہماری خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساجد حسین کی گمشدگی میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ ہم نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس میں پاکستان کا بدنامہ زمانہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ملوث ہوسکتی ہے۔ لیکن سویڈش حکومت کی نہایت سست رفتار تحقیقات اور سست رفتار بازیابی کی کوشش نے ہم سے ایک بلوچ صحافی، دانشور اور مدبر انسان چھین لیا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا بلوچستان میں پاکستان انسانی لہو سے ہولی کھیل رہا ہے۔ پاکستانی افواج اور خفیہ ادارے شدت کے ساتھ بلوچ نسل کشی کے گھناؤنے عمل میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچ دو دہائیوں سے مہذب دنیا، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کررہے ہیں کہ اس نسل کشی کے سدباب کے لئے عملی کردار ادا کریں۔ لیکن اقوام متحدہ سمیت مہذب دنیا کی مجرمانہ غفلت سے پاکستانی جنگی جرائم نے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم دیا ہے۔ پاکستان کے جنگی جرائم اور درندگی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے یورپ سمیت دیگر ممالک کا رخ کیا ہے۔ ان میں صحافی، دانشور اور سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ اب نوبت بہ اینجا رسید کہ یورپ میں بلوچ محفوظ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ممالک جو اپنی انسانی حقوق اور اقدار پر فخر کرتے ہیں، ان میں دن دھاڑے ایک نامور صحافی کا اغوا اور موت ایک نہایت افسوسناک امر ہے۔ ساجد حسین ایک معمولی انسان نہیں تھے بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پاکستان کے معروف انگریزی جرائد ”دی نیوز انٹرنیشنل“، ”ڈیلی ٹائمز“ میں بطور اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر اور ڈپٹی سٹی ایڈیٹر کام کرچکے ہیں۔ بلوچ صحافیوں کے قتل اور ملنے والی دھمکیوں کے بعد ساجد حسین نے مختلف ممالک میں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد سویڈن میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ انسانی المیے سے دوچار بلوچستان کے حقائق دنیا کے سامنے لانے کے لئے آن لائن جریدہ ”بلوچستان ٹائمز“ کا اجراء کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپسالہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کررہے تھے، جہاں سے وہ دو مارچ کو لاپتہ کئے گئے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ساجد حسین کی موت سے جہاں بلوچ قوم نے اپنا قیمتی فرزند کھو دیا ہے، وہاں یورپی ملک کی ساکھ اور شہرت پر سنجیدہ سوالات اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ میں سویڈش حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ ساجد حسین کی جبری گمشدگی اور موت کا شفاف اور فوری تحقیقات کی جائیں۔ لیکن معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھ کر اقوام متحدہ، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔