استاد
تحریر: فتح بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مایوسی کے عالم میں وہ ایک امید اور روشن مستقبل کی نوید بن کر قوم کی رہنمائی میں کامیاب رہا۔ ہر طرف ایک مایوسی کا ماحول تھا، بلوچ سماج میں بے یقینی کی کیفیت طاری ہوچکی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا سب کچھ ختم ہوچکا ہے، دشمن کی جارحیت کے سامنے قومی طاقت سکڑنے کی طرف تیزی سے جارہا تھا، قومی طاقت ایک دوسرے کے خلاف بندوق سے قلم تک استعمال ہورہا تھا، قوم کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو دشمن تیزی سے کچل رہا تھا، کمزور لوگ دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہورہے تھے۔
لیکن وہ لڑ رہا تھا
رہنمائی بھی کررہا تھا
کب کیا کرنا ہے، وہ اس ہنر سے بھی واقف تھا
بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں اور بلند بلا پہاڑوں پر، اس کے ہزاروں ہم خیال دوست، شاگرد دشمن کی طاقت کے خلاف نبرد آزما تھے۔
سختیوں میں اس نے ان بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو یکجاہ کیا، ایک طاقت بنایا، جو مایوسی کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے تھے، وہ موسم بدل گیا۔ بلوچستان اس سے جو مانگ رہا تھا، اس نے اپنے سب سے پیارے لخت جگرکو بلوچستان کے لیئے پیش کیا۔
اس نے اپنے ہر بنائے ہوئے، حکمت عملی کو عمل کے سانچے میں ڈھال دیا، کلاچی سے کوہ باطل تک زامران سے بولان تک جو امید کی فضا قائم ہوئی قابل دید تھی۔
20 سالوں سے اس نے اپنے کئی دوستوں کو اپنے ہاتھوں سے سپرد گل زمین کیا تھا۔
دو دہائیوں سے وہ اتنا کام کرچکا تھا کہ اسے آرام کی ضرورت تھی، جب وہ ہم سے رخصت ہوا، ہم گھبراہٹ کا شکار ہوئے کہ اب کیا ہوگا، اس کے بعد صورتحال کیا ہوگی؟
لیکن اسے اپنے بعد کی حالات کا علم تھا، اس نے اپنے شاگردوں کی جو تربیت کی تھی، وہ اسکے بعد اسی ڈگر پر اسی رفتار پر چل رہے ہیں، جو بلوچستان ان سے تقاضہ کررہا تھا۔
اور ہم بھی یہی امید رکھتے ہیں، استاد محترم کے رخصتی کے بعد استاد محترم کے ہم خیال دوست و ساتھی، استاد کے بعد بلوچستان کے تقاضوں کو ایمانداری سے پورا کرینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔