کرونا، عوامی رویے، علماء کرام کی بصیرت اور ریاستی فیصلے – احمد علی کورار

181

کرونا، عوامی رویے، علماء کرام کی بصیرت اور ریاستی فیصلے

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

جس ملک میں انسان سازی کے بجائے میٹرو سازی اور اورینج سازی پہ اکتفا کیا جاتا ہو، اس ملک میں حکومت 20 نکاتی ایجنڈا(ایس او پیز) پیش کرکے بری الزمہ ہو جائے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر لیا اور ساتھ میں لوگوں سے عمل کرنے کی بھی توقع رکھے، بہرے کے کانوں میں سر گوشیاں کرنے کے مترادف ہے اور یہاں یہ قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ریاست ہمیشہ مذہبی معاملات میں اپنا صائب فیصلہ پیش کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے۔ ایسے کٹھن معاملات میں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے لیکن اگر قیادت خود ایسے فیصلے صادر فر مائے جس سے گنجلک سی صورت حال پیدا ہو تو عوام الناس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے جوسرے سے نظم و نسق جیسے اصولوں سے انجان ہے۔ پاکستان میں اس وقت صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے، چیئر مین NDMA کا کہنا ہے ماہ مئی میں کرونا کی نئی لہر بڑھنے کا خدشہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس چیز کو Light لے رہے۔ ایسے میں لاک ڈاون میں مزید نرمی کرنے کی بھی نظر ثانی کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، نرمی تو اپنی جگہ حقیقت میں یہاں Effective لاک ڈائون ہوا ہی نہیں۔

جب عالم اسلام میں کرونا کے باعث ماہ صیام میں نماز تراویح کا اہتمام انسانی جانوں کی حفاظت کے پیش نظر موخر کیا جارہا ہے، تو یہاں یہ فیصلہ سنانے میں کیا حرج تھا ریاست ایسے معاملات میں کیوں مجبور ہو جاتی ہے بنیادی وجہ قیادت کا فقدان ہے ہاں مذہبی علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور انھیں اس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ uniform decision کی ضرورت ہے اس وبا کے پیش نظر علما کو ریاستی فیصلے کو من و عن ما ننا چاہیئے نہ کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں اس میں تو کوئی دو آراء نہیں انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔

ابتدا میں ہم نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاون کی اصطلاح استعمال کی، شاید بہت ہی کم آبادی نے اس اصطلاح کو استعمال کے بجائے عمل بھی کیا ہو اس وقت سمارٹ لاک ڈاون کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ آج صبح میرا کسی کام سے مارکیٹ جانا ہوا معمول سے زیادہ بھیڑ دیکھنے میں آئی اور لوگ بلا خوف وخطر ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ بڑے پیمانے پر خریدو فروخت کا سلسلہ جاری ہے خریدنے والوں اور فروخت کرنے والے والوں نہ کوئی ماسک پہنا ہوا تو نہ ہی دستانے۔ ایک دم ایسا لگا کہ ہم نے کرونا سے دو ہاتھ کر لیے ہیں اور اس وبا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ گئی ہو اور زندگی معمول پہ آگئی ہو۔

یہ جانتے ہوئے بھی ہم ایک ایسے ان دیکھے دشمن سے نبرد آزما ہیں جو انسانی زندگیاں نگلنے کے درپے ہے ہم نے غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا وطیرہ اپنایا ہوا ہے بنیادی وجہ انسان سازی کا فقدان ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کسی بھی معاشرے میں انسان سازی کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے لیکن جب ریاست نے انسان سازی کو اپنی ترجیحات میں سے نفی کر دیا ہو تو اب دن میں کتنے ہی بھاشن دیے جائیں کیو نکر سمجھ آئیں گے۔

مذہبی معاملات میں ہماری ریاست اتنی کمزور پڑ جاتی ہے، اسے مذہبی علماء کرام کے فیصلے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ مذہبی معاملات میں علماء کی رائے ضروری ہے لیکن جب حالات کرونا سے نمٹنے جیسے ہوں تو فیصلہ اس نوعیت کا ہونا چاہیے جس سے انسانی جانوں کے نقصان کا خدشہ نہ ہو۔ یہ بات علما کرام کو سمجھنی چاہیے اور تراویح کے معاملے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بہر حال ریاست کو کوئی بھی فیصلہ دینے سے پہلے اجتماعی طور پر غورو خوض کی ضرورت ہے اور حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ جس نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اس کے خلاف ایکشن لیا جا ئے گا کون اس ایس اوپیز پر عمل کر ے گا ایسا ممکن ہی نہیں اگر ایک مرتبہ اس چیز کا اہتمام ہو جائے پھر روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔

حکومت اور علما کرام سے التماس ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں کہیں دیر نہ ہو جائے، جب انسان کی جان کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ عزیز ہے تو یہاں ایسی کنفیوژن پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

جب انسان سازی کا فقدان ہو تو قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے پھر یہ ایس او پیز اعلامیے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ ایسے فیصلے دنیا کے لیے مضحکہ خیز بن جاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔