سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 7 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

345

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
یونانی و پرتگالی سام راج (آخری حصہ)

بلوچستان کے ساحلِ سمندر کے ساتھ ساتھ کئی مساجد، تاریخی عمارات اور مندر واقع ہیں جو سیاحوں کے لیے باعث ِکشش ہیں۔ لیکن ان مقامات تک رسائی نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے ثقافتی سرمایہ کو نہیں دیکھ سکتے۔ سڑکوں کی تعمیر سے آثارِ قدیمہ اور تاریخی مقامات تک رسائی ہوتی جارہی ہے، اور خوب خوب بلوچستان شناسی ہونے لگی ہے۔

کوہِ باتیل پر سولہ کلو میٹر تک سنگار رہائشی سکیم بنائی گئی ہے۔ پکی سڑک اور سیورج کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ اس سکیم میں بلوچستان کے دانش وروں، صحافیوں اور ادیبوں کے لیے پلاٹ مخصوص ہیں۔ دیگر لوگوں نے بھی یہاں پلاٹ بنا رکھے ہیں۔ حکمران طبقات کے وابستگان بھی اس حسین اور خوب صورت مناظر سے بھرے علاقے میں اپنی رہائش گاہیں مخصوص کروا چکے ہیں۔

علی بلوچ کا مشاہدہ ہے کہ گوادر گناہ گاروں کو پہچانتا ہے اور سزا دیتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جتنے بھی سربراہانِ مملکت، گورنر اور بڑے لوگ گوادر کا دورہ کرتے ہیں تو واپسی پر بر طرف ہو جاتے ہیں۔ وہ اس بارے میں بے نظیر بھٹو کی مثال دیتا ہے، نواز شریف بھی دورۂ گوادر کے بعد بادشاہ نہ رہا، امیر الملک بھی گوادر سے واپسی کے بعد بڑا قاضی نہ رہا تھا۔ گورنر بلوچستان میاں گل کو یہیں سے واپسی پر صوبہ سرحد بھجوا دیا گیا تھا۔ یا پیرانِ پیر! گوادر کا احتساب جاری رہے!!۔

باتیل پہاڑ پر قدیم زمانے کی زمینداری کے زبردست آثار ہیں۔ یہاں بہت ہی قدیم زمانے کا بنا ہوا ایک تالاب ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ ایک کنواں ہے، زمینیں اوربندات ہیں۔ پتھر کے بڑے بڑے بلاک خوب صورت ترتیب سے ایک دوسرے پر رکھے ہوئے ہیں۔ گوادر کی تاریخ کا گرو، علی بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان آثار کو پر تگیزیوں کے دور کا قرار دیتا ہے۔ واضح رہے کہ سولہویں صدی کے اوائل میں پر تگیزیوں نے ہمارے وطن کے اس حصے پر قبضہ کیا تھا۔ چنگیز اور ہلاکو کی تہذیب دشمنی کے بعد ظلم و ستم میں پرتگیزی نو آباد کاروں ہی کا نمبر آتا ہے۔ ان نا ترس لوگوں نے 1518 میں پسنی اور گوادر کے خوب صورت اور امیر شہر جلا ڈالے تھے۔ ان بیرونی قبضہ گیروں کی راہ میں بلوچوں نے مزاہمت کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ اس مزاحمت اور اس کے ہیرو ہمّل کے بارے میں بلوچی کلاسیکل شاعری میں مواد کا ایک انبار موجود ہے۔ اِس شان دار انسان ہمّل کے قلعے اور کنوئیں ابھی تک ”گزدان بل“ میں موجود ہیں۔ اس نے پسماندہ ٹیکنالوجی اور فرسودہ اسلحہ کے باوجود کھلے سمندر میں جا کر بلوچستان کے دشمنوں کو للکارا۔ لڑتے ہوئے بالآخر اس کی پاک زندگی قربان ہو گئی۔ شہیدوں کی وجہ سے تو قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔ وطن سے پیار، سرزمین سے عشق اور آزادی سے کمٹ منٹ………… ہمّل کے ہزار نام ہو سکتے ہیں۔ یہی اعلیٰ انسانی اقدار نہ رہیں تو انسان انسان ہی نہ رہے بس آلو اور شفتالو ہی رہ جائیں۔

”میرا دوست میدانِ جنگ سے واپس نہیں آیا، سر۔ میں باہر جا کر اُسے لینے کی اجازت چاہتا ہوں“۔
”اجازت نہیں ہے“ آفیسر نے کہا۔ ”میں تمہیں ایک ایسے شخص کے لیے جان خطرے میں ڈالنے نہیں دوں گا جو شاید مر چکا ہے“۔
سپاہی اس کے باوجود چلا گیا، ایک گھنٹہ بعد مہلک طور پر زخمی حالت میں لوٹ آیا۔ اپنے دوست کی لاش اٹھائے۔
آفیسر طیش میں تھا، ”میں نے تمہیں کہا تھا کہ وہ مر چکا۔ اب میں تم دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں۔ مجھے بتاؤ ایک لاش کو اندر لانے کی اتنی بڑی قیمت جائز تھی؟“۔
آخری سانس لیتے ہوئے شخص نے جواب دیا، ”ہاں سر، بالکل۔ جب میں اُس تک پہنچا تو وہ ابھی تک زندہ تھا اور اس نے کہا، ”جیک، مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤگئے“۔
اور میرا بلوچستان ضرورت کے وقت ایک نہیں، ہزار جیک دیکھتا رہا ہے۔

گوادر کو پرتگالی ”گوادل“ کے نام سے جانتے تھے اور اس کا ذکر مینوئل ڈی فاریا ساؤزا کی کتاب History of the Portuguese doings in the Eastمیں ملتا ہے۔ باتیل پہاڑ کن کن ویریوں کی آنکھیں پھوڑ چکا ہوگا!

سترھویں صدی میں بلیدی یہاں کے فیوڈل حکمران فیوڈل ہو گئے جن سے پھر گچکیوں نے علاقہ لے لیا۔ انہوں نے 1735ء میں نادر شاہ کے جنرل تقی خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس جگہ کا مستقل قبضہ لے لیا۔ قلات کے بڑے فیوڈل نصیر خان نوری نے اس علاقے کی آمدن میں حصہ نہ ملنے پر یہاں بار بار حملے کیے۔ اورجب اس سے گچکی فیوڈلوں نے ریونیو کی آمدن سے آدھا دیتے رہنے کا معاہدہ کیا، تب جا کر جنگ بند ہوئی۔

1860ء کی دہائی میں پارس کی طرف سے بلوچستان کے ساحلی علاقے میں دست اندازیاں جاری تھیں۔ 1869ء میں پیشین پر  بمپورکے پارس والے گورنر ابراہیم خان نے قبضہ کیا اور انگریز حکومت نے خان قلات کی طرف سے مداخلت کرکے اس کی پیش رفت کو روک دیا۔ پھر، برطانیہ، قلات اور پارس کے نمائندوں کے ایک اجلاس کا فیصلہ ہوا اور سر، ایف گولڈ سمتھ برطانوی کمشنر مقرر ہوا۔ مگر یہ مشن ایرانی بلوچستان کے بمپورتک 28 جنوری 1872ء سے پہلے نہ پہنچ سکا۔(8)

سنڈیمن نے 1883-4 ء میں اس علاقے کا دورہ کرکے تمام تنازعات کا تصفیہ کرلیا۔ اس نے ایک طرف تو قلات کی اپنے رعایا کے ساتھ موجود جھگڑوں کا تصفیہ کیا اور دوسری طرف گوادر میں مسقط کی رعایا کے درمیان اختلافات مٹا ڈالے۔ یہاں 1876ء میں اُس وقت اختلافات پیدا ہوئے تھے جب گوادر کے والی نے رندوں کے کچھ فرار شدہ غلاموں کو حوالے کرنے سے انکار کر کے اُن کے غصے کو اکسایا تھا، جو باقاعدہ جھگڑے کی شکل اختیار کرگیا۔ انڈو یورپین ٹیلیگراف لائن کاٹ دی گئی اور دوسرے اقدامات ہوئے۔ جولائی 1879ء میں مسقط سپاہ اور کچھ رند تاجروں کے درمیان ایک جنگ بھی ہوئی جس میں تین رند تاجر قتل ہوئے اور کچھ زخمی۔ 1880ء سے 1883ء تک مسئلہ خاموش رہا مگر 1883ء کے جنوری میں ٹیلے گراف ڈیپارٹمنٹ کی ایک پارٹی پر حملہ ہوا، جو یہاں کام کررہا تھا۔(9)

ہم تاریخ سن رہے تھے…… کوہِ باثیل پر گاڑی دوڑاتے ہوئے حمید نے ایک جگہ گاڑی روک کر ہمارے اس تسلسل میں مارشل لا لگا دیا۔ اس کی ہدایات پر ہم پیدل ایک اترائی اترے۔ اور نیچے ایک بڑی وسیع ہموار چٹانی سطح پر کھڑے ہوگئے۔ ہم سے دو فٹ نیچے سمندر تھا۔ عمیق، شفاف نیلگوں سمندر………… عین پاؤں کے نیچے میلوں گہرا سمندر۔ واہ میرے رنگی بادشاہ۔ کتنی خوب صورتی، کتنا حسن!!۔ اس ہموار جگہ کو ”گرّاب“ کہتے ہیں۔ وہیں سمندر کے بیچ میں سے سر اٹھائی ہوئی ایک چٹان پہ ہمیں ایک سانپ کی میت نظر آئی جسے ہر طرف سے کیکڑے کھا رہے تھے۔ اس قدر شان والا سانپ جو ہندوستان میں دیوتا بنا بیٹھا ہے، میرے بلوچستان میں کتنا قابلِ نفرت اور حقیر بنا تھا۔ علی بلوچ بتاتا ہے؛ ”یہ سانپ بہ یک وقت خشکی کے بھی ہوتے ہیں اور سمندر میں بھی بلا تکلف تیراکی کرنے، شکار کھیلنے، یا پھر محض چہل قدمی کرنے آزادانہ آجاسکتے ہیں“۔

”گرّاب“ کے آس پاس ہمیں چرسیوں کی خلوت گاہیں بھی نظر آئیں اور شرابیوں کے جام و سبو کی ”باقیات“ بھی۔ ہمارے بس میں ہوتا تو ہم دنیا بھر کے سارے شرابیوں کو ہانک کر گوادر لے جاتے اور ”گراب“ پہ بٹھا کر شراب پینے کا حکم دیتے۔ جہاں خاموشی مکمل سکوت بن جاتی ہے۔ فرحت بخش ہوا نشہ کو دو آتشہ کرتی ہے۔ خوب صورت نیلگوں سمندر اور Sea- Gull نامی خوب صورت بڑے سفید پرندوں کی تنہا یا باجماعت اٹھکیلیاں اس قدر دل فریب نظارہ تخلیق کرتی ہیں کہ شرطیہ طور پر ایک ہی جام سات آسمان پار پہنچا دیتا ہے۔ پریوں کا دیس ہے بلوچستان!!

ہم اس جادوئی فضا سے واپس شہر کو آتے ہیں تو علی بلوچ اصرار کرتا ہے کہ ہم گوادر پارک دیکھتے ہوئے چلیں اور جب وہ اپنے مخصوص لہجے میں زور دے کر، گوادر کا ”اکلوتا پارک“ کہتا ہے تو ہم تھکاوٹ کے باوجود تجسس میں ”ہاں“ کہتے ہیں۔ علی بلوچ بلوچستان کی پسماندگی کے مقدمے کا سب سے بڑا وکیل ہے۔ یہ شخص اکیسویں صدی کو بلوچستان سے ملا ڈالنے والا سفیر ہے۔ زندہ باد علی بلوچ آف گوادر۔

یہ بلوچ ساحل کا ”اکلوتا“ پارک ہے جو عین ساحل پر کروڑوں روپے کی لاگت سے بنایا گیا۔ یہ چھوٹا سا کیاری نما قطع چار حصوں میں منقسم ہے۔ اس میں سیمنٹ کے بنچ بھی رکھے ہیں۔ بلوچستان میں کسی سرکاری پارک میں گھاس کی موجودگی نا ممکنات میں سے ہے۔ پارک میں خواتین و حضرات! باقاعدہ ریت کے ٹیلے ہیں: مصنوعی نہیں قدرتی۔ ریت کے ان نرم ڈھیروں پر کتے استراحت فرماتے ہیں؛ درجنوں کتے …… کالے، موٹے، سست الوجود، خارش زدہ۔ ان ڈھیروں میں دسیوں کھڈے انہی کتوں کی آرام گاہیں ہیں۔ انسانی جمالیات کے ساتھ یہ گھناؤنا مذاق ہماری بیورو کریسی ہی کرسکتی ہے۔ جسے بے شمار نیپاؤں، اکیڈمیوں میں نزاکتوں لطافتوں کی ٹرینگیں دی جاتی ہیں۔ پارک کی چار دیواری کب کی مہر گڑھ بن چکی ہے۔ جسے سبزہ سے، گل سے، مہک سے پیار نہیں، وہ کیا انسان ہوگا؟۔
ارے بلوچستان پسماندہ نہیں، اس کی بیورو کریسی پسماندہ ہے!!


حوالہ جات

1۔- Tarn, W.W ” the Greeks in bactria and india”
Cambridge University press, 1951, P.94.
2۔ Costal enroironmental management, plan for pakistan-
United nations,New york,1996, page No.1
-3بلوچ، محمد امینInside ormara۔ صفحہ6-
4۔بارہویں صدی کی ”افضال ِ کرمانی“ جس کا حوالہ دیا: بلوچ، ایم ایس نے اپنی کتاب”اے لٹریری ہسٹری آف بلوچیز“1977۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ۔ صفحہ52 میں۔
5۔”Gwader Master Plan” Govt Of Balochistan,
Nov-2002, Page No. 2-3
6۔ پول، سر ہنریThe book of Marcopolo, the venetain concerning the kingdoms and Marvels of tha east London: John murry 1903: p.401
7۔صابر بدل خان،Costal makran” Urasian Studies 1/2 -2002)،
P No.245
8۔ بلوچ، محمد امینInside Ormara،1999، کراچی صفحہ12
9۔قاضی سلیمان۔”نو دن……“ ماہنامہ سنگت۔ صفحہ54


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔