دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر (حصہ چہارم)
جیٹی
جیٹی، دو بڑی دنیاؤں کو ملانے والا پلیٹ فارم ہوتا ہے؛ دو مختلف ماحولیاتی ثقافتی اور معاشی دنیاوں کو ملانے والا پلیٹ فارم۔ ہفتوں تک سمندر میں در بدر رہنے کے بعد دو تین دن کے لیے جیٹی، ماہی گیر اور اس کی کشتی کو خشکی پر انسانی حیات کے کاروان میں شمولیت دلانے والی دلآویز جگہ ہوتی ہے۔ مگر دوسری طرف یہی وہ منحوس جگہ ہے جہاں انسانی معاشرہ کی سب سے بڑی برائی بھی شروع ہوتی ہے کہ یہیں پہ اس کی محنت کا نا ترس استحصال ہوتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے ڈریکولا مچھیرے کی پیداوار کو سستے داموں ہتھیا کر اپنی چیزیں اس پر مہنگی فروخت کر دیتے ہیں۔ اور بھی ادائیں ہیں، ”قومی جمہوری انقلاب“ والی اس ”نیشنل بورژوازی“ کی جن کے ذریعے بلوچ ماہی گیر کے گھر کا چولہا سرد، اس کے کپڑے تار تار، اس کا بیٹا بے روزگار ہیروئنی، اور اس کی کمیونٹی کی کلچرل سطح پست رکھنے کے سامان ہوتے ہیں۔
شہر گوادر کے جنوب مشرق کی جانب ”دیمی زر“ میں خشکی کی طرف سے، گہرے کھلے سمندر کے اندر65 میٹر چوڑا اور چار سو میٹر لمبا ایک مضبوط پلیٹ فارم تعمیر کیا گیا ہے، جسے جیٹی کہتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے تینوں اطراف چوں کہ کھلا سمندر ہے، اس لیے تینوں اطراف سے کشتیاں آکر کھڑی ہوسکتی ہیں۔ گوادر کی جیٹی ہزار ہزار ٹن کے تین جہازوں، ایک سو ساٹھGill- Knitters اور چار سو چھوٹی کشتیوں کو لنگر انداز ہونے کی سہولتیں دے سکتی ہے۔ یہ جہاز اور کشتیاں اپنی پکڑی ہوئی مچھلی اس پلیٹ فارم پر اتارتی ہیں۔ یہیں پر تین ہزار مربع میٹر کا ایک ہال بنا ہوا ہے۔ وہاں اس مچھلی کو وزن کرنے کی سہولت موجود ہے۔ اس ہال میں دلال موجود ہوتے ہیں جو مچھلی خریدنے کی بولیاں دیتے ہیں اور ماہی گیر اپنی مچھلی فروخت کرتے ہیں۔ ماہی گیر شکار کی اپنی ضرورت کی چیزیں بھی یہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ اسی پلیٹ فارم پر ایک ہزار مربع میٹر کا ایک شیڈ بھی ہے، جس میں مچھلی سٹور ہوتی ہے۔ اس مصنوعی پلیٹ فارم کے اوپر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹرک، جیپیں اور کاریں دوڑتی رہتی ہیں مگر میلوں گہرے سمندر پر بنا ہوا یہ مضبوط پلیٹ فارم نہ گرتا ہے نہ جھول کھاتا ہے …… سرکار کی مرضی ہو تو گہرے سمندر کے اوپر بغیر ستون کے جیٹی بنا لیتا ہے۔ اور اگر مرضی نہ ہو تو بیجی دریا پر ایک پل تک نہیں بن سکتا۔ سائنس کو ہمیشہ انسان دوست لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔
پسنی میں بھی ایشین ڈو یلپمنٹ بنک کی طرف سے ایک فش ہاربر بنایا گیا ہے۔ یہ فش ہاربر اور فش ہینڈ لنگ سنٹر 1989ء کے وسط میں مکمل ہوگیا۔ اس کا رقبہ 16 ہیکٹرز ہے۔ اس پر ایک کار گو جیٹی ہے، تین برتھنگ جیٹی ہیں جن میں سے ہر ایک 100 میٹر لمبی ہے۔ ساٹھ میٹر لمبی یک ڈھلوانی جیٹی اور سو میٹر لمبی ایک لوڈ اتارنے والی گھاٹ ہے۔ اس میں نیلامی کا ہال ہے اور سٹور کرنے والے سرد خانے کے چارکمرے ہیں۔
ماہی گیری میں کام کی تقسیم
اس استحصال کی تفصیل میں ہم ذرا دیر بعد جائیں گے۔ آیئے ذرا ماہی گیر کے لٹنے اور استحصال ہوجانے والے اولین مقام یعنی اس کی کشتی پر چلیں:
یہ ماہی گیری کی ایک لانچ ہے۔ میں اور میرا ’راہنما‘ علی بلوچ جیٹی کے ساتھ بندھی اس لانچ میں پھلانگ آتے ہیں…… ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ لانچ ماہی گیری کی بڑی کشتی ہوتی ہے جو بہت مہنگی بنتی ہے۔ اور اس کا مالک بڑا سرمایہ دار ہوتا ہے۔ یہاں ایسے سرمایہ دار بھی ہیں جن کی پندرہ پندرہ، بیس بیس لانچیں ہیں (بلوچستان میں طبقات نہیں ہیں!!!!)۔
میں اور میرا علی جس لانچ پہ گئے، وہ افغان نامی شخص کی ملکیت تھا۔ اس پر تیرہ افراد کا عملہ ہے (ہر لانچ پر ماہی گیروں کی تعداد لانچ کی سائز پر منحصر ہوتی ہے)۔ بڑی لانچوں پہ بیس سے پچیس افراد بھی کام کرتے ہیں۔ جب کہ ماہی گیر کی عام کشی پر چھ سے آٹھ افراد کام کرتے ہیں۔
مچھلی کے شکار کی مجموعی شکل ”سنگار“ کہلاتی ہے۔
لانچ پہ کام کرنے والے افراد کی تقسیم اس طرح ہے:
-1 ناھدا(کپتان)
یہ تجربہ کار شخص ماہی گیری کے پورے آپریشن کا انچارج ہوتا ہے۔ یہ بڑا دریا نورد شخص، ماہی گیری کے مشن کی منصوبہ بندی کرتا ہے، اس کی نگرانی کرتا ہے اور کشتی، اوزار، اور عملے کا حتمی ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ موسم کے بارے میں اندازہ کرسکتا ہے اور طوفان وغیرہ جیسی مشکل صورت حال میں راہنمائی کرتا ہے۔ اُسے طوفان کی بہت پہچان ہوتی ہے۔ بہت حوصلہ مند یہ ناھدا طوفان میں لانچ کا سکّان (سٹیرنگ) خود سنبھالتا ہے۔ ناھدا ماہی گیری کے فن میں طاق اور پختہ ہوتا ہے۔
-2سارنگ(سرہنگ)
اسسٹنٹ کپتان ہوتا ہے۔ آگے آگے ہوتا ہے اور جال پھنکوا دیتا ہے۔ بہ وقت ِضرورت وہ ناھدا کا کام بھی سنبھالتا ہے۔
-3ڈرائیور
لانچ چلاتا ہے۔
-4 بانڈاری
یہ کشتی میں موجود محنت کشوں کے اِس کنبے کا مسلسل 20-25 دن تک باورچی ہوتا ہے۔
-5خلاصی
اسے ”جاں شو“ بھی کہتے ہیں اور ”ملاح“ کا لفظ بھی اس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لانچ میں کم از کم آٹھ نو خلاصی ہوتے ہیں۔ سمندر میں ماہی گیری کی ساری مشقت یہی لوگ کرتے ہیں۔ یہ جال پھینکتے ہیں، نکالتے ہیں، شکار کردہ مچھلی کو جال سے نکالتے ہیں۔ اس مچھلی کو نمک لگاتے ہیں، برف توڑتے ہیں اور مچھلی کو لانچ کے نچلے خانوں میں سٹور کرتے ہیں۔
’جاں شو‘ بہت مشقت کرتے ہیں۔ جال ہر وقت مرمت مانگتا ہے، اس لیے کہ اس میں پھنسی ہوئی منہ زور مچھلیاں اپنی آزادی کی جدوجہد میں اسے پھاڑتی رہتی ہیں۔ پلاسٹک کے سرخ، سفید خوب صورت فٹ بال آپ کو اس کے جال پہ جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ یہ بال سطح آب پر تیرتے رہتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وسیع سمندر میں جال ہے کہاں۔
خلاصی بلوچ ساحلوں کی آبادی کا 50 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ لوگ شام چار بجے جال پھینکتے ہیں اور رات کے تین بجے نکالتے ہیں۔ پھر اپنا شکار جال سے نکال کر نمک و برف لگا کر سٹور والے تہہ خانوں میں رکھتے ہیں۔ وہ جنگ و جدل کا شکار ہوجانے والے اس جال کی مرمت کرتے ہیں اور شام چار بجے پھر جال سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ روز کا یہی معمول رہتا ہے:
؎ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔