آخری بہار – سفر خان بلوچ

871

آخری بہار

تحریر: سفر خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دیواروں پہ گولیوں کے لگنے سے بے شمار سوراخیں، گھروں کی در و دیوار، دروازے، کھڑکیاں بری طرح گولیوں سے مسمار ہوچکی تھیں، زمین پر اینٹ اور پتھروں کا ڈھیر تھا اور پاس ہی زمین پر پڑے ساتھی کی لاش اور زخمی ساتھی بے جان پڑے تھے۔ جگہ جگہ خون کے دھبے تھے اور اس کی عجب سی مہک تھی،اسکے جسم پر زخموں کے متعدد نشانات تھے، پھٹے ہونٹ، زخموں سے خون رواں دواں ہونے کے باوجود وہ چٹان کی طرح کھڑا تھا۔

اس نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا ، زخمی ساتھی زانوں پر زمین پر بیٹھا تھا، اسکا چہرہ اب بھی روشن تھا، وہ دوڑتا ہوا لاش اور زخمی ساتھی کے پاس گیا، جہاں اس نے اسکا ہاتھ تھام لیا، پھر اس نے بے جان پڑے ہوئے لاش کو سیدھا کیا، اسی وقت وہ چیخ اٹھا، یہ میرا ساتھی ہے اور اس نے اپنا فرض نبھایا اور مجھے ابھی اپنا فرض ادا کرنا ہے۔

اسی لمحے کوئی آگ نما گرم چیز چیرتی ہوئی اس کے جسم میں گُھس گئی۔ چہرے پہ مسکراہٹ ابھی بھی تھا، آنکھوں میں آنسوؤں کے بجائے رونق تھی، اسی لمحے اس نے مسکراتے اور نورانی چہرے کے ساتھ ایک کپڑے کا ٹکڑا اپنے زخمی ساتھی کو تھما دیا جس پر خون کے دھبے بھی تھے۔

دوسری جانب ابھی تک تنددرست ساتھی دشمن پہ گولیاں برسا رہا تھا، ایک لمحے میں گولیوں کی آواز خاموش ہوگئی، دوسرا ساتھی ایک بارپھر اپنے میگزین بھرنے لگا اور فوجی بوٹوں کی آوازیں مزید نزدیک آنے لگیں، مزید فوجی ٹرک زمین کو چیرتے ہوئے اپنے فوجی دستوں کے پاس آپہنچے اور ٹرکوں سے مزید فوجی دستے اتر کر ارد گرد پھیلنے لگے۔

اس کے بعد پورے محلے میں خاموشی کا سماں چھا گیا دور کسی محلے میں ایک ننھے بچے کے رونے کی آواز کانوں میں پڑ رہا تھا اور اسی وقت ایک موٹر سائیکل کی آواز خاموشی کو چیرتی ہوئی مشرق سے مغرب کی جانب جارہا تھا، کچھ لمحے بعد پھر سے خاموشی چھا گئی تیزی کے ساتھ جاتے ہوئے موٹر سائیکل اور چھوٹے کی رونے کی آواز بھی نہیں آرہے تھے۔ شاید موٹر سائیکل آگے جاکر بند ہوا اور بچے کو شاید اسکی ماں نے خاموش کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ سو گیا ہو۔

اب دوسرے ساتھی نے تیزی کے ساتھ میگزین بھر لیا، اور ایک بار پھر وہ گولیاں برسانا شروع کردیتی ہے، نزدیک آتی ہوئی فوجی بوٹوں کی آوازیں ایک دم خاموش ہوجاتی ہیں۔

رات کے آخری پہر اس وقت رات کی تاریکی اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا اور روشنی آہستہ آہستہ اپنے وجود کو زمین پہ بکھیرنے کی کوشش میں تھا اور محلے کے مرغوں نے آزان بھی دینا شروع کردیا تھا۔

وہ ابھی بھی زخمی ساتھی کے پاس بیٹھا تھا اور زخمی ساتھی یہ زور دے رہا تھا آپ فکر کرنا چھوڑ دیں میں ٹھیک ہوں، آپ جائیں دشمن پاس آرہے ہیں، اس کے کندھے پہ لگی گولی کے زخم سے ابھی بھی تیزی کے ساتھ خون بہہ رہا تھا۔

زخمی ساتھی بول پڑا ظلم کرنے والوں کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے اور بربریت کے جھنڈوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اندھیر نگری کے مسافروں کو دیئے کی لو دکھائی جائے، یہ سنتے ہی اس کے آنکھوں میں روشنی آگئی، اس کے حوصلے مزید بلند ہوئے، وہ ایک بار پھر کھڑا ہوکر دوسرے ساتھی کے پاس چلا جاتا ہے۔ ساتھی کے ساتھ دشمن پہ گولیوں کی بوچھاڑ کرنے لگ جاتا ہے، وہ اپنے لاغروجود کوگھسیٹتا ہوا جانب منزل تیزی کے ساتھ جانے لگ جاتا ہے۔

ایک سمت سے آتی ہوئی عجیب وغریب آوازوں نےدہشت پھیلا دیا، مگر پھر بھی ان کے حوصلے بلند ہوئے وہ ڈٹے رہے اس نے آسمان پر پھیلتے کالے بادلوں کو دیکھا اور منزل کی جانب دوڑنے لگا۔

بستی بلبلا اٹھی ۔۔ پہاڑوں میں روئی بھر گئی، زمین یوں لرزی کہ دوسری سمت میں شگاف پڑ گیا، وہ پھر بھی بھاگتا ہوا منزل جانب چلتا جارہا ہے، پیاس کی شدت کسی طور کم ہی نہ ہو رہی تھی، تالابوں کا پانی ختم کر چکے تو سیراب کے لیےخون کی ندیاں بہانے لگے قیامت کا ایک دن معین ہے مگر وہاں قیامت بڑی جلدی آگئی تھی۔

دشمن کی نگاہیں اس وقت بہادرجنگجو کو ڈھونڈنے میں لگیں تھی ، بستی شبِ یلدا کےمحور میں گھومتی رہی، یہ دشمن کی سوچ کا آخری دائرہ تھا اس کا وجود مٹی ہونے لگا تھا

اس وقت آسمان نے سیاہ اچکن پہن لی اور زمین بھیانک سایوں کی زد میں آگئی بستی خون میں نہا کر خاموش ہو چکی، جھینگروں کی جھیں جھیں تک حالت سکوت میں چلی گئی، جب دشمن کے بندوقوں کی نلیں ایک ساتھ کھلنے لگے اس نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا اور کہا رخصت اف آواروں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔