کورونا وائرس انسانی جسم کو کس طرح نقصان پہنچاتا ہے، بچاؤ کا اہم ہتھیار کونسا ہے؟

318

کورونا وائرس کیا ہے یہ انسانی جسم کو کس طرح نقصان پہنچاتا ہے اور اس سے بچاؤ کا اہم ہتھیار کونسا ہے؟

دسمبر 2019 میں چینی حکام نے دنیا کو مطلع کیا کہ ان کے علاقے سے ایک وائرس پھیل رہا ہے۔ چند ماہ میں یہ دوسرے ممالک میں پھیل گیا اور آگے چل کر، تعداد دگنی ہوگئی۔

یہ وائرس Severe Acute Respiratory Syndrone سے تعلق رکھنے والا کورونا وائرس ٹو ہے، جو کوویڈ 19 نامی بیماری کا سبب بنتا ہے،عرفِ عام میں لوگ جسے کورونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں۔

جب یہ انسانی جسم پر حملہ کرتا ہے، تو اصل میں ہوتا کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے، کورونا ایک وائرس، اصل میں جینیاتی مادے اور پروٹین کے ٹکڑوں پر مشتمل ایک چیز ہوتی ہے، جس میں جان نہیں ہوتی۔ یہ صرف ایک جاندار سیل میں داخل ہوکر اپنی تعداد بڑھا سکتا ہے۔

کورونا، کئی جگہوں سے ہوتا ہوا آتا ہے، لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ اس کی زندگی کتنی ہوتی ہے، اس کا پھیلاؤ انفیکشن سے ہوتا ہے، جب لوگ کھانستے ہیں یا کسی بیمار کو چھوکر، ہاتھ اپنے چہرے یا آنکھوں پر لگاتے ہیں، وائرس یہیں سے اپنا سفر شروع کرتا ہے، اور پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہوتے ہوئے، انسانی جسم کے اندر چلا جاتا ہے۔

اس کی منزل، آنتیں، پھیپڑے ہوتے ہیں جہاں یہ سب سے زیادہ تباہی کر سکتا ہے، کم تعداد میں کورونا وائرس بھی کافی بڑی تباہی مچاسکتے ہیں۔ پھیپڑے کی تہہ میں ہزاروں لاکھوں سیلز موجود ہوتے ہیں، جو آپ کے جسم کے اہم اعضاء کو انفیکشن سے بچاتے ہیں۔

کورونا اپنے جینیاتی مواد کو اِن میں داخل کر دیتا ہے، جس سیل پر وائرس کا حملہ ہوتا ہے، وہ خود بخود اس کے قابو میں آجاتا ہے اور احکامات ملنے کے بعد اپنی تعداد کو بڑھا تا چلا جاتا ہے،جب تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے، تو اسے خود کو تباہ کرنے کا آخر ی حکم ملتا ہے تباہ شدہ سیل، راستے سے ہٹ تو جاتا ہے، مگر اُس کی جگہ نئے particles لے لیتے ہیں۔

انفیکشن والے سیل کی تعداد، حیران کن حد تک بڑھ جاتی ہے۔لگ بھگ 10 دن کے بعد، جسم کے لاکھوں سیل، انفیکشن کی زد میں ہوتے ہیں، اور کڑوروں وائرس پھیپھڑے میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ابھی تک، وائرس نے زیادہ نقصان نہیں پہنچا یا ہوتا ہے، لیکن کورونا اب اصل حملہ کرتا ہے۔آپ کے اپنے مدافعتی نظام پر۔۔مدافعتی نظام، جو کہ آپ کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے،کسی بھی حملے کی صورت میں، خطرناک واقع ہوسکتا ہے، اسی لئے اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہےاور چونکہ وائرس سے لڑنے کے لئے مدافعتی سیل،پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتے ہیں،کورونا، اِن میں سے کچھ پر اثر انداز ہوتا ہے اور پریشان کردیتا ہے۔

سیلز کے نہ کان ہوتے ہیں نہ آنکھیں۔ وہ معلومات کے لئے زیادہ تر پروٹین کے چھوٹے ذرات پر انحصار کرتے ہیں، جنہیں سائیٹوکِنز sytokinsکہتے ہیں۔ہر حملہ، انہی کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔

کورونا، متاثرہ سیلز کو اپنے حکم کے تابع کرلیتا ہے، اور پھر ایک گھمسان کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔یوں سمجھیں، کہ مدافعتی نظام،میں ایسی کھلبلی مچ جاتی ہے، جس سے دفاع کا نظام، ضرورت سے زیادہ وسائل کا استعمال کرکے انسانی جسم کو نقصان ہوتا ہے۔دو طرح کے سیلز، صحیح معنوں میں تباہی پھیلاتے ہیں۔

ایک، نیوٹرا فائلزجو تباہی مچانے میں ماہر ہیں۔ جب یہ ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں، تو انزائیمز کو خارج کریتے ہیں جو اپنوں کے ساتھ ساتھ دشمن کو بھی تباہ کرتا ہے۔

دوسرے اہم قسم کے جنگجو سیلز، killer T cells ہوتے ہیں،جو قابو کرنے کے بعد متاثرہ سیلز کو خودکشی پر مجبور کردیتے ہیں۔وہ healthy cellsکو بھی خود کو ہلاک کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جتنے زیادہ سے زیادہ دفاعی سیلز پہنچتے ہیں، اتنا ہی نقصان زیادہ ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کے healthy tissuesپر حملہ آسان ہوجاتا ہے، حالات اتنے بگڑ سکتے ہیں کہ اس سے مستقل نقصان ہوسکتا ہے، جس سے عمر بھر کی معذوری کا بھی خدشہ ہے۔

پھیلاتے ہیں۔ایک، نیوٹرا فائلزجو تباہی مچانے میں ماہر ہیں۔ جب یہ ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں، تو انزائیمز کو خارج کریتے ہیں جو اپنوں کے ساتھ ساتھ دشمن کو بھی تباہ کرتا ہے۔

دوسرے اہم قسم کے جنگجو سیلز، killer T cells ہوتے ہیں،جو قابو کرنے کے بعد متاثرہ سیلز کو خودکشی پر مجبور کردیتے ہیں۔وہ healthy cellsکو بھی خود کو ہلاک کرنے کا حکم دیتے ہیں۔جتنے زیادہ سے زیادہ دفاعی سیلز پہنچتے ہیں، اتنا ہی نقصان زیادہ ہوتا ہے،اور پھیپھڑوں کے healthy tissuesپر حملہ آسان ہوجاتاہے،حالات اتنے بگڑ سکتے ہیں کہ اس سے مستقل نقصان ہوسکتا ہے، جس سے عمر بھر کی معذوری کا بھی خدشہ ہے۔

زیادہ تر کیسز میں، قوت مدافعت کا نظام آہستہ آہستہ دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیتا ہے، یہ متاثرہ سیلز کو ہلاک کرتا ہے، دوسرے سیلز پر حملہ کرنے والے وائرس کا راستہ روکتا ہے، اور روکتا ہے، اور میدان جنگ کو صاف کرتا ہے،یہاں سے ریکووری شروع ہوتی ہے۔

جیسا کہ ہمارے پاس، کورونا کے لئے کوئی ویکسین موجود نہیں ہے، لہذا ہمیں اپنا رہن سہن ایسا بنانا ہوگا، کہ ہم ایک سماجی ویکسین کی طرح کام کریں۔اس کے دو مطلب ہو تے ہیں، متاثر نہ ہونا اور دوسروں کو متاثر نہ ہونے دینا۔اگرچہ یہ عجیب سی بات لگتی ہے، لیکن اس لڑائی میں سے سب سے اہم ہتھیار، اپنے ہاتھ کو مستقل دھونا ہے۔ صابن دراصل ایک طاقتور آلہ ہے، کورونا وائرس بنیادی طور پر چربی کی ایک تہہ میں گھرا ہوتا ہے۔ صابن اس چربی پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اسے وائرس سے الگ کردیتا ہے۔ اس سے آپ کے ہاتھ پر کوئی چیز بھی پھسل جاتی ہے،اور دھونے کے عمل سے وائرس بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

اسے صحیح طریقے سے کرنے کے لئے، اپنے ہاتھوں کو ایسے دھوئیں جیسے آپ نے ابھی لال مرچ کاٹی ہو، اور آپ کو کانٹیکٹ لینس لگانا ہے۔اس کے بعد اگلی چیز سماجی دوری ہے، ویسے برا سمجھی جانی والی بات، یہاں پر کارآمد ہے۔

اس کا مطلب ہے کسی سے گلے نہ ملیں، نہ مصافحہ کریں۔اگر آپ گھر میں رہ سکتے ہیں تو رہیں، اُن لوگوں کے تحفظ کے لئے جنہیں روز مرہ کے کاموں کے لئے گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں سے لے کر دفتر کے لوگوں اور پولیس افسروں تک،ان کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے، اور آپ کی، اُن کے۔

بڑے پیمانے پر، یہاں قرنطینہ ہوتا ہے،جس کے کئی اقسام ہیں،سفر ی پابندی سے لے کر گھر میں رہنے کے احکامات تک۔قرنطینہ کا تجربہ کبھی اچھا نہیں ہوتا،اور یقینی طور پر مقبول تو کہیں سے بھی نہیں، مگر اس سے ہم کو دور رہنے اور دواسازی پر کام کرنے والے محققین کو مرض کا توڑ ڈھونڈنے کا وقت مل جاتا ہے۔

لہذا اگر آپ کو قرنطینہ میں ڈال دیا جائے، تو آپ کو اس کی اہمیت کو سمجھ کر اس کا احترام کرنا چاہیئے۔اس میں تفریح کا عنصر شامل نہیں، لیکن ایک خوشگوار زندگی کے لئے، یہ چھوٹی سی قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔

وبائی بیماری کے خاتمے کا سوال، اس کے شروع ہونے سے منسلک ہے۔اگر وہ تیزی سے شروع ہوئے ہوں گے، تو، انجام برا ہوگا،اگر وہ معمولی رفتار سے شروع ہوئے ہوں گے، تو ٹھیک ہونے کے امکانات زیادہ ہیں اور اس دور میں،ہر طرح سے یہ سب کچھ اپنے طور پر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔