دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 23 | برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات (چھٹا حصہ)
آرین حملوں کے بعد سے لے کر آج تک یعنی موجود ہ دور تک بلوچستان کی تاریخ غیر ملکی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کے خلاف رزم آرائی سے مزین ہے۔ میر احمد یار خان نے کیا خوب لکھا ہے کہ:
’’ہمیشہ ہم بلوچوں کا مقابلہ اپنے سے زیادہ طاقتور اور باجبروت حکومتوں سے رہا ہے۔ بلوچوں نے آرام سے بیٹھ کر کبھی بھی بزم آرائی نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ میدان رزم کی گرم بازاری ہی ان کے حصے میں آتی رہی ہے، اور انہوں نے اپنی ساری زندگی مدافعانہ جنگ و جدال کی صورت میں گزاردی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ شہنشاہ مغل، شہنشاہ ایران، شاہ افغانستان، پنجاب کے سکھ، سندھ کے حکمران، حکومت برطانیہ اور حکومت پاکستان سے بلوچوں کا مقابلہ رہا ہے۔ بلوچوں نے متذکرۃ الفوق کسی بھی حکومت پر جوع الارض اور کشور کشائی کی خاطر حملہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ ہمیشہ اپنی عزت وناموس، قدیمی بلوچی روایات اور بلوچی حکومت کی حفاظت کی خاطر مدافعانہ جنگ لڑتے رہنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔‘‘(23)
گو میر مہراب خان کی شہادت کے وقت بلوچ قبائل نے محراب خان کی اپنی متشددانہ پالیسیوں اور سرداروں کے ایماء پر اس کی امداد نہ کی مگر یہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ انگریز میر محراب خان کو شہید کر دیں گے۔ لہٰذا خان کی شہادت کے بعد بلوچ قبائل نے اپنے غم و غصے کا اظہار ہمیشہ کی طرح کیا اور برطانوی تسلط کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور مسلح جدوجہد شروع کی۔ یہ مسلح جدوجہد 1839ء سے 1920ء تک جاری رہی اور بلوچ تاریخ میں کئی نامور جنگبازوں کا اضافہ ہوا اور جہدمسلسل اور قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوتی رہی۔ اب بلوچ قبائلی کسی پوٹینگر یا کرسٹی کی مہمان نوازی نہیں کرسکتا تھا کہ جنہوں نے ان کی نمک اور پانی کا اچھا حق ادا کیا تھا۔ لہٰذا اب مہمان نوازی کی بجائے پوٹینگر نہ سہی لوڈے ہی سہی، اس کو قتل کر دیا گیا۔(24)
برطانوی قبضہ واختیار کی تاریخ بلوچ مزاحمتی جدوجہد سے بھر پور ہے۔ گوکہ برطانوی سامراج ان جنگبازوں کو باغی قرار دیتا ہے مگر بلوچی تاریخ میں ان کا درجہ قومی ہیرو کا ہے۔ ان جانبازوں میں سردار گوہر خان زرکزئی، یوسف خان زرکزئی، نواب خان محمد زرکزئی۔ میر محراب خان گچکی، میر بلوچ خان نوشیروانی، نورا مینگل، سلیمان گرگناڑی، نواب خیربخش مری اول، میر خدائیداد خان بجارانی مری، غلام حسین بگٹی، سردار شہسوار خان محمدزئی، سردار جیئند خان گمشادزئی، سردار خلیل خان وغیر ہ ایسے سینکڑوں کردار ہیں کہ جنہوں نے برطانوی سامراج کو للکارا اور اپنے انتہائی محدود ذرائع اور وسائل کے باوجود اپنے وقت کی عالمی طاقت کے خلاف رزم آرائی کی نئی تاریخ رقم کرتے رہے۔
1839ء میں قلات پر انگریز ی حملے کے بعد بلوچستان بھر میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک شدید لہر دوڑ گئی اور قبائل مسلح جدوجہد کی خاطر پہاڑوں پر چلے گئے مگر یہ طویل اور غیر منظم بغاوت جو وقتاً فوقتاً برطانوی جارحیت کے خلاف جاری رہی کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی اور 1920ء تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بالآخر برطانوی تسلط، اثرات اور اقدامات کو روکنے اور بلوچ قوم کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنے کی خاطر 1920ء میں میر عبد العزیز کرد نے ینگ بلوچ نامی خفیہ تنظیم بنائی۔ بعد ازاں 1929ء میں میر یوسف عزیز مگسی بھی اس میں شامل ہوگئے اور 1931ء میں انہوں نے انجمن اتحاد بلوچاں کی داغ بیل ڈالی۔(25) اس طرح بلوچستان میں مسلح بغاوت کے ساتھ ساتھ آئینی جدوجہد کا بھی آغاز ہوا۔ انجمن اتحاد بلوچاں نے بہت جلد بلوچ عوام میں زبردست مقبولیت حاصل کی اور برطانوی نامزد کردہ وزیر اعظم سرشمس شاہ کو بہت جلد اقتدار چھوڑ کر گجرات جانے پر مجبور کیا۔ بعد ازاں وقتاً فوقتاً بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں تشکیل پاتی رہیں مثلاً انجمن اتحاد بلوچاں، انجمن اسلامیہ، انجمن وطن، ورورپشتون، قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی وغیرہ جو سب برطانوی تسلط اور اس کے سامراجی اقدامات کی وجہ سے بنیں۔ انہوں نے برطانیہ کے قبضہ و نوآبادیاتی نظام کی مخالفت اور خاتمہ کے لیے تاریخی کردار ادا کیا۔ اس طرح کم از کم برطانوی جاسوسوں، ایجنٹوں اور بعد ازاں افواج کے آنے اور قلات پر قبضے نے بالآخر آہستہ آہستہ بلوچ قوم کو مزاحمتی اور سیاسی جدوجہد پر ابھارا اور بلوچستان میں جدید سیاسی سوچ پروان چڑھتی رہی ایک طرف سیاسی جدوجہد۔ دوسری طرف مسلح بغاوت اور تیسری جانب ہندوستان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں نے بالآخر انگریزوں کو ہندوستانی اور دیگر نو آبادیاتی ریاستوں کی آزادی پر مجبور کیا۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور آخر کار دوسال کے اندر اندر انگریزوں نے برصغیر کی تقسیم کے ساتھ بلوچستان کی آزادی کا بھی اعلان کر دیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔