بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 22 – برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات

613

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 22 | برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات (پانچواں حصہ)

انگریزی قبضہ و اختیار سے قبل گوکہ بلوچستان میں طبقات ضرور موجود تھے اور امیر وغریب کا فرق بھی موجود تھا مگر اس قدر نہیں تھا کہ یہ طبقات ایک دوسرے سے دور ہوتے بلکہ ایک عام قبائلی اپنے سردار کے پاس جاسکتا تھا اپنا مدعا بیان کر سکتا تھا اور اپنا مسئلہ حل کرواسکتا تھا۔ اگر سردار ناہل ہوتا تو قبائلی معتبرین، مَلِک اور ٹکری ملکر اس کا محاسبہ کرسکتے تھے اور اسے اس کے عہدے سے طریقہ کار کے مطابق ہٹاسکتے تھے۔ ایک مسافر افغانستان سے ساحل مکران یا حدود سندھ و ہند تک حفظ وامن میں رہتا تھا اور بلا خطر خطہ بلوچستان میں سفر کرسکتا تھا۔ اسے کسی قسم کا خوف و ہراس نہیں ہوتا تھا مگر برطانوی قبضے اور سرداروں کو کھلم کھلا اختیارات نے طبقاتی تقسیم کے عمل کو تیز تر کیا۔ امیر و غریب کا فرق واضح ہونے لگا۔ سردار سینکڑوں محافظوں کی جلو میں حرکت کرنے لگا۔ اپنے عام قبائلی فرد سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا اور عام قبائلی کی حیثیت ایک غلام کی سی ہو کر رہ گئی راستے غیر محفوظ ہوگئے سردار کے سپاہی اور گماشتے لوٹ مار میں مصروف ہوگئے۔ عام قبائیلیوں سے ناجائز ٹیکس لیا جانے لگا۔ ان کو جبری مشقت میں لگایا گیا۔ حتیٰ کہ قبائلی کا پورا خاندان پیر و جوان، خوردوکلاں، زن و مرد سب کے سب سردار کے غلام بن گئے کچھ اس کی زمینوں پر کام کرتے تھے کچھ گھروں میں کام کرتے تھے اور جوانوں سے سپاہی اور محافظت کا کام لیا جانے لگا تھا۔ ہر سردار نے اپنی ذاتی فوج بنائی اور اسی فوج کو اکثر و بیشتر انگریزوں کے ایما پر اپنی ہی ریاست اور اپنے ہی حکمران کے خلاف استعمال کیا، کبھی اس فوج سے اس نے دہلی یا مشہد کے میدانوں و صحرائوں کو مسخر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ قلات نصیری کی دیواروں میں شگاف ڈالتا رہا۔ سرداروں کی موروثیت قبائل اور طبقہ اعلیٰ کے مابین خلیج کو وسیع تر کرتا گیا اور یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے نہ صرف بیگانہ ہوتے گئے بلکہ ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی بن گئے۔ کہاں وہ سردار جو دور قہاری اور دور نصیری میں اپنے قبیلے کی جلو میں ایران و ہند کی سرزمین کو مسخر کررہا تھا اور اب کہاں وہ جو اپنے قبیلے سے دور بھاگتا تھا اور گنتی کے چند بندوق برداروں کے جھرمٹ میں برطانوی لارڈ کی قدم بوسی کو کبھی کوئٹہ کبھی سبی حاضر ہونے لگا تھا۔ حتیٰ کہ حالت یہ تھی کہ ایک عام قبائلی پہاڑوں کو مسکن بنا کر برطانوی تسلط کے خلاف لڑرہا تھا جبکہ اس کا سردار سبی میں انگریز لارڈ کی بگھی کھینچ رہا تھا۔ ایک قبائلی بہادر انگریز جنرل برائون کے کوہلو میں جوتے اتار کر اسے ننگے پائوں نصیر آباد کے کیمپ کی جانب ہانک رہا تھا(22) جبکہ دوسری جانب قبائلی سردار انگریز لارڈ کے جوتے صاف کررہے تھے۔ چھوٹے درجے کے تمام پیشے اور کاروبار سے سردار صاحب کتراتے تھے اور براہ راست انگریز لارڈ سے رقم وصول کرتے تھے جبکہ کاروبار یعنی زراعت، مال مویشی، دکانداری، ماہی گیری وغیرہ قبائلی کرتے تھے جبکہ سرداران سے اپنا حصہ وصول کرتے تھے۔ بلوچستان میں طبقات نے ہندو معاشرے کی شکل اختیار کی تھی۔ درزادہ، نقیب، ڈومب اور لوڑی ایسے طبقات تھے کہ سردار تو کجا ایک عام قبائلی بھی ان سے ہاتھ تک نہ ملاتا تھا بلکہ تمام تر خدمات وہ سرانجام دینے کے باوجود تذلیل سے دوچار ہوتے تھے۔ ان کی حیثیت ایسے غلاموں کی سی ہو کر رہ گئی تھی کہ جن کی کوئی قیمت اور اہمیت نہیں تھی، حتیٰ کہ انگریزوں کا یہ تحفہ آج تک بلوچ معاشرے میں ناسور کی طرح موجود ہے۔ حالانکہ یہ طبقات انگریزوں کی آمد سے قبل بھی موجود تھے مگر ان کو مقام ومرتبہ حاصل تھا اور بعض مخصوص کام ان کے ذمے تھے جو وہ ذمہ داری اور تندہی سے ادا کرتے تھے اور قبائلی سردار و عوام ان کی عزت و توقیر کرتے تھے۔ ان کے، نان نفقے اور علاج معالجے کا خیال رکھتے تھے ان کو خرچ و اخراجات دیتے تھے اور ان کی محافظت کرتے تھے۔ یہ جس قبیلے سے منسلک ہوتے اسی قبیلے کے افراد کہلاتے اور ان کو تمام تر قبائلی حقوق حاصل ہوتے تھے۔ برطانوی قبضے کے ساتھ ہی طبقہ اعلیٰ مزید امیر ہوتا گیا اور غریب غریب تر۔ لہٰذا ان کے مابین خلیج بڑھتی گئی۔ لوڑی تو درکنار، ایک اصل قبائلی سے اس کی غربت اور مفلسی کی بنا پر طبقہ اعلیٰ یعنی سردار و میر معتبر صاحبان ملنے یا اٹھنے بیٹھنے سے کتراتے تھے حالانکہ برطانوی مداخلت سے قبل یہ کمتر درجات کے ہنر مند لوگ ہر سفر میں سردار کے ساتھ ہمرکاب ہوتے تھے۔ کوئی اس کے لئے ہتھیار بناتا، کوئی سازوزیمل سے اس کا دل بہلاتا کوئی اس کے کھانے پینے کا بندوبست کرتا تو کوئی اس کی خدمت کرتا اور اس کے ہاتھ پائوں دباتا، اور اکثر و بیشتر سرداران سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے ان کی تعظیم کرتے اور ان کے اخراجات پورے کرتے۔ مگر برطانوی مداخلت کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا اور یہ طبقات معاشرے میں رذیل و ذلیل ہوتے گئے۔ گوکہ برطانیہ نے 1926ء میں ایک قانونی مسودے کے ذریعہ غلامی کے خاتمہ کا اعلان کردیا تھا مگر اس کے باوجود یہ طبقاتی تقسیم برطانوی عہد تک نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں اتنی زیادہ شدت آگئی کہ اس جدید دور میں بھی بلوچستان ان اثرات کی لپیٹ میں ہے البتہ باشعور اور نوجوان طبقے نے اپنی بے مثال جدوجہد اور کوشش سے بلوچستان کے کئی علاقوں سے اس سوچ و فکر اور طبقاتی تقسیم کو ختم کردیا ہے اور باقی ماندہ علاقوں میں بھی یہ سوچ اور طبقاتی تفریق ختم ہوتی جارہی ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔