دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 21 | برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات (چوتھا حصہ)
بلوچستان کے کمبرانی قبائل نے دیگر بلوچ قبائل کے ساتھ ملکر جس حکومت کا آغاز کیا تھا وہ مختلف مدراج اور نشیب وفراز طے کرکے آخر کار ایک قومی حکومت میں تبدیل ہوچکی تھی اور اس کا دائرہ کار اٹھارہویں صدی تک وسیع تر ہوچکا تھا۔خوانین قلات خصوصاً میر احمد خان اول، میر عبداللہ خان قہار اور میر نصیر خان نوری نے بلوچستان کے جغرافیائی حدود کو لسانی اور قومی بنیادوں پر وسعت دی اور تمام بلوچ علاقوں کو یکجا کرکے انھیں قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ان حکمرانوں کی اعلیٰ خدمات کی بدولت عام بلوچ قبائلی ان سے بے پنا محبت کرتا تھا اور ان کے ایک اشارے پر اپنی گردن اور اپنا خون انہیں پیش کرتا تھا ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ خان کی پہلی پکار پر اسلحہ بند ہو کر حاضر ہوتا تھا اور مشہد کے صحرائوں سے لے کر پانی پت کے میدانوں تک اپنا خون بہاتا رہتا تھا۔ عوام نے اپنے حکمرانوں کو عظیم القابات عطا کئے تھے۔ وہ انہیں قہار، کوہی وقاب، نوری، ولی وغیرہ القاب دیتے تھے اور جہاں یہ حکمران خصوصاً میر نصیر خان نوری دو رکعت نماز ادا کرتا تو لوگ وہاں پتھروں کی مسجد بنا کر اس جگہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مرکز سجود بناتے۔ آج بھی بلوچستان کی پہاڑی وادیوں، ریگستانوں اور میدانوں میں ایسی لاتعداد مساجد ہوںگی کہ جو میر نصیر خان نوری سے منسوب ہیں(18) اور بلوچ قوم کی اپنے عظیم حکمران سے دلی اور والہانہ محبت کا واضح ثبوت ہیں۔ کتب تواریخ میں بلوچ قوم کی اپنے حکمرانوں سے عقیدت و محبت کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں بیرون دنیا میں خوانین قلات کا ایک اعلیٰ مرتبہ اور مقام تھا۔ ان کی اسلامی جہادی خدمات کے صلے میں مسلمان خلفاء اور دیگر حکمرانوں نے ان خوانین کوہمیشہ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا اور انہیں برادرِ وفادار اور بیگلر بیگی جیسے عظیم خطابات والقابات سے نوازا تھا(19) مختصراً یہ کہ ان خوانین بلوچ نے محنت شاقہ سے یہ القاب اور خطاب حاصل کئے تھے اور بڑی جدوجہد اور محنت کے بعد بلوچ قوم اور بیرون دنیا میں مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا۔ بلوچستان کے دربار میں بیرونی سفیر اور بلوچستان کے سفیر دنیا کے دیگر ممالک میں آتے جاتے اور سرکاری طور پر تعینات ہوتے تھے اور دنیا کے نقشے پر بلوچستان ایک خود دار، آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔
مگر میر نصیر خان نوری کی رحلت، نئے مقرر کردہ خان کی کمسنی، سرداروں کی سرکشی اور درباری وزراء کی غلامانہ اور سازشی ذہنیت نے مملکت بلوچستان کی عظمت کو دھیرے دھیرے طشت ازبام کردیا اور بہت جلد درباری غداروں اور قوم فروش سرداروں کے بلاوے اور تعاون سے انڈس آرمی نے انگریز جرنیلوں کی سرکردگی میں پورے ملک بلوچستان کو خاک و خون میں ملا دیا اور بلوچستان میں تباہی و بربادی برپا کردی۔ اگر انگریزی قبضے کا الزام صرف قبائلی سرداروں یا درباری غداروں کو دیا جائے تو شاید درست نہ ہو کیونکہ بذات خود خوانین قلات بھی اس کے ذمہ دار تھے کہ جن کی ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے انگریز جاسوس اس خطے میں آئے مگر خان میر محمود خان اور اس کے بھائی اور رفقاء ان جاسوسوں کی اصلیت سے ناواقف رہے۔ یہ ان کے نظام کی کمزوری تھی کہ غیر ملکی جاسوس دارالحکومت کے اندر ہفتوں نہ صرف قیام پذیر رہے بلکہ شاہی خاندان کے افراد نے ان کی باقاعدہ مہمان نوازی بھی کی(20) پوٹینگر، کرسٹی، گرانٹ اور اے ڈبلیو ہیوز پورے بلوچستان میں دندناتے پھر رہے تھے اور ان کی اصلیت سے بے خبر بلوچ قوم ان کے اور ان کے سواری کے جانوروں کی دانہ پانی کی فکر میں لگی رہی۔ حتیٰ کہ حکمرانوں کی اپنے عوام سے دلچسپی اور ان کے فلاح و بہبود اور دنیاوی شعور سے آگہی کے لئے کی جانے والی کوششوں کی حالت یہ تھی کہ جب بیسویں صدی کی تیسری دھائی میں جنرل ڈائر اپنی گاڑی میں بلوچ علاقوں میں مٹر گشت کررہا تھا تو بلوچ عوام اس کے عجیب و غریب جانور کو دیکھ کر ڈر گئے تھے اور حیران ہوتے تھے اور ساتھ ہی اس کے لئے چارہ پانی لے آتے تھے۔ یقیناً حکمران اتنا نااہل ہو تو اس کے اثرات اس کے ملک و قوم پر ضرور پڑتے ہیں۔ انگریزوں نے بھی خوانین قلات کی کمزوریوں سے آگاہی حاصل کرلی تھی اور وہ اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے آگاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان خوانین اور ان کے سرداروں کو خوش آمد، چاپلوسی اور مادی اشیاء دولت سے خریدا جاسکتا ہے لہٰذا وہ وظیفوں، انعامات اور تحفوں کے بدلے ان حکمرانوں کو اپنے معاہدات کے جال میں پھانستے چلے گئے اور پے درپے معاہدات کے ذریعے ان کے ملک کا بیشتر حصہ ہتھیا لیا اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ خوانین قلات کی وہ حالت کردی کہ ایک عام برطانوی فوجی جنرل برائون نے خان خدائیداد خان جیسے باجبروت حکمران کو گرفتار کرلیا(21) اور اس کی حکمرانی ختم کرکے اس کے نااہل بیٹے کو اس کا جانشین مقرر کیا۔ گوکہ انگریزوں کے اس ناروا عمل کے خلاف بلوچ قبائل نے بغاوت بھی کی مگر اس سے کچھ نہ بن سکا اور خوانین قلات کا مقام و مرتبہ سب کے سامنے آیا۔ بیسویں صدی میں تو خوانین کی حیثیت صرف ایک ربڑ سٹیمپ کی سی تھی اور سارے اختیارات کا مالک برطانوی نمائندہ ہوتا تھا۔ مختصراً یہ کہ برطانوی جاسوسوں نے خوانین کی کمزوریوں کو بھانپ لیا تھا اور ان کے بعد آنے والوں نے آسانی کے ساتھ ان حکمرانوں اور ان کے قبائلی سرداروں کو خرید کر انہیں، ان کے عوام اور ان کے ملک کو تقریباً سوسال کے لئے اپنا غلام بنالیا اور خوانین قلات نے اپنے آبائو اجداد کے اس مقام اور مرتبے کو کھودیا کہ جس کے حصول کے لئے میر احمد خان، میر محراب خان اول، میر عبد اللہ قہار نے اپنا خون بہایا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ خوانین قلات محتاجوں، فقیروں، سادھوئوں، علماء، طلباء، غربا اور دیگر کئی طبقات کے لوگوں کو خیرات اور وظائف دیا کرتے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خوانین قلات اور اس کے بااثر قبائلی سردار برطانوی ایجنٹ سے اپنا وظیفہ اور تنخواہ وصول کرنے لگے۔ المختصر یہ کہ خوانین کا وہ سابقہ جاہ و جلال اور مقام و مرتبہ برطانوی ایجنٹوں کی آمد اور برطانوی فوجیوں کے قبضے کے بعد قصہ پارینہ بن چکا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔