دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 19 | برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات (دوسرا حصہ)
اسی طرح یہ برطانوی جاسوس بلوچستان کی تاریخ پر بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں اور اکثر کوئی مستند حوالہ دیئے بغیر وہ بلوچستان کے سیاسی ادوار کی نقشہ کشی کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر بلوچستان کو دیگر قوتوں کے زیر اثر ہونا تحریر کرتے ہیں۔ وہ بلوچستان کی آزادانہ حیثیت سے منکر نظر آتے ہیں۔ مگر اس ضمن میں بھی ان میں اختلافات نظر آتے ہیں جو کہ برطانوی پالیسی کا ایک حصہ تھا یعنی مل جل کر ایسا اختلافی نقطہ نظر بیان کریں کہ جو آئندہ آنے والے بلوچ نسل کو بھی الجھائے رکھے اور اختلافات ومسائل کا شکار بھی بنائے رکھے۔ جس طرح وہ بلوچستان کو دیگر قوتوں کا غلام بتاتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان پر کبھی بھی کوئی بڑی طاقت جم کر حکومت نہیں کر سکی ہے۔ زمانہ ماضی بعید سے تاحال اگر کبھی بڑی طاقت نے بلوچستان پرقبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا یا یہاں فوج کشی کی تو جواباً شدید رد عمل اور مسلح مزاحمت سامنے آئی یونانی حملوں کے دوران لسبیلہ اور مکران میں شدید مزاحمت کی گئی(5) عرب حملوں کے دوران مکران اور جھلاوان مزاحمتی تاریخ کا حصہ بنے(6) منگول اور برطانوی راج کے خلاف طویل مسلح جدوجہد(7) تاریخ بلوچستان سے شغف اور دلچسپی رکھنے والے افراد سے چھپی نہیں ہے۔ افغانستان نے بھی احمد شاہ ابدالی کے زیر قیادت بلوچستان پر ملکیتی دعوے کیئے اور حملہ آور بھی ہوا مگر نتیجتاً وہ ایک معاہدے یعنی معاہدہ قلات 1758ء کے تحت بلوچستان کی آزادانہ اور خودمختارانہ حیثیت ماننے پر مجبور ہوا(8) مگر برطانوی جاسوسوں اور ایجنٹوں نے اپنی دروغ بیانی کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے بلوچستان کی تاریخ کے اکثر صفحات اپنی غلط بیانیوں کی نذر کئے بدقسمتی سے نسلی و قومی تاریخ کے موضوع کی طرح سیاسی تاریخ رقم کرتے وقت بھی یہ شاطر برطانوی ہر نقطہ پر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ 1758ء کے معاہدہ قلات کی حقیقت تمام برطانوی مصنفین جانتے تھے مگر ماسوائے میلسن کے کسی نے اس پر لکھنے اور بحث کرنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی اس کے شرائط کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اسی طرح کوئٹہ سے قندھار تک کے خطے کا قدیم نام اور خصوصاً قندھار شہر کے قدیم نام بیلوس BELOS سے تقریباً تمام برطانوی مورخین آگاہ تھے۔ ریورٹی اپنی کتاب Notes on Afghanistan and Balochistan میں اس لفظ کو بار بار تحریر بھی کرتا ہے(9) مگر اس کے باوجود وہ نہ تو اس پر تحقیق کی ضرورت محسوس کرتے ہیں نہ لفظ بیلوس جو واضح طور پر لفظ بلوچ کی پشتو زبان میں ادائیگی ہے، کی وضاحت کرتے ہیں اور نہ ہی اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر قندھار کا قدیم نام (عرب دور میں) بیلوس کیوں تھا اور کیوں عرب کوئٹہ سے قندھار تک کے خطے کو اسی نام سے پکارتے اور تحریر کرتے تھے(10) چونکہ برطانوی مفادات افغانستان کے ساتھ زیادہ گہرے تھے لہٰذا قندھار (جوکہ حقیقتاً بلوچ قبائل کی آماجگاہ رہنے کی وجہ سے بیلوس کہلاتا تھا) کی حقیقت پر افغانستان کی ناراضگی کے سبب روشنی نہیں ڈالی البتہ تحریر کرتے وقت وہ اس لفظ کو نظر انداز نہ کر سکے۔ کیونکہ تاریخ کی قدیم کتابوں میں یہ لفظ کثرت سے ملتا ہے(11)
اس طرح کی لاتعداد مثالیں برطانوی تحریروں میں ملتی ہیں کہ جن میں بلوچستان کی سیاسی تاریخ کو بری طرح پامال کرنے کی کوشش کی گئی اور حقائق کے منافی بیانات تحریر کئے گئے۔ ان تاریخ سے نابلد فوجیوں کے ان اقدامات سے بلوچستان کی سابقہ سیاسی تاریخ شدید متاثر ہوئی اور غیر بلوچ طبقات سمیت بلوچوں کے ایک وسیع طبقے کو بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے غلط فہمی میں مبتلا کیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ تاجر پیشہ قومیں کہ جو راہداری قلات حکومت سے لیتے تھے اور تجارتی سنگ یعنی محصول قلات حکومت کو ادا کرتے تھے سب کچھ جاننے کے باوجود کہ بلوچستان کی حیثیت آزادانہ رہی ہے وہ بھی برطانوی تحریروں کی غلط فہمیوں کا شکار ہوگئے اور ان میں سے اکثر بلوچستان کو ماضی میں افغانستان کا ایک حصہ تصور کرتے تھے ۔
حقیقت حال تو یہ ہے کہ بلوچستان ماضی بعید سے اب تک بڑی طاقتوں کے ساتھ اتحادی کی حیثیت سے رہا ہے اس نے اپنے اندرونی معاملات میںکسی کی مداخلت برداشت نہیں کی۔ اس کی کئی مثالیں تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔ چاہے وہ ہخامنشی دور ہو یا پھر عرب دورغزنوی حملے ہوں یا پھر منگول یلغار برطانوی عہد ہو یا پھر تقسیم ہند۔ بلوچستان کی ان میں آزادانہ اور خودمختار حیثیت رہی ہے اور درج بالا ہر دور میں غالب قوتوں کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات کے ذریعے خوشگوار رہے ہیں اور بلوچستان نے ایک اتحادیAlly کی حیثیت سے ان کا ساتھ دیا ہے۔ معاہد ہ قلات 1758ء فیمابین افغانستان و بلوچستان اور برطانوی عہد کے لاتعداد معاہدات اس کے گواہ ہیں۔
دراصل غالب اور حاکم قوتوں کا پہلاوار ہی تاریخ پرہوتا ہے لہٰذا وہ مغلوب ومحکوم اقوام کی تاریخ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تحریر کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ اپنے آپ کو تاریخ نویسی کی پابندیوں سے آزاد اور مبراء سمجھتے ہیں۔ البتہ جدید دور میں جوں جوں بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر تحقیق اور تفتیش آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طریقوں اور ذرائع سے ہورہی ہے یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ برطانوی تاریخ نویسی دراصل بلوچستان کی حقیقی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش تھی۔
وہ خطہ زمین کہ جہاں زمانہ قدیم سے بلوچ قبائل آباد رہتے چلے آرہے ہیں اس کا رقبہ بیان کرنا شاید آسان نہ ہو کیونکہ بلوچ قبائل شمال میں وسط ایشیا کی خطوں کے ساتھ منسلک ہیں تو جنوب میں ساحل مکران ان کی آماجگاہ ہے۔ مشرق میں کوہ سلیمان سے لیکر مغرب میں ایرانی صوبہ کرمان تک ان کی قدیم آبادی کے آثار ملتے ہیں اور شمالی ایران میں کوہ البرز، مازندران اور گیلان کے صوبوں میں بھی ان کی موجودگی کی تاریخ کے صفحات پر تفصیلات اور شہادتیں موجود ہیں۔ البتہ بلوچستان کی سیاسی و جغرافیائی حد بندی کا کل رقبہ مستند مورخین 3,40,000 مربع میل بیان کرتے ہیں(12) اور یہی درست ہے کیونکہ بلوچستان کی سیاسی حد بندی 1758ء کے معاہدے کے مطابق مسلم سمجھی جاتی ہے اور جو رقبہ میر نصیر خان نوری کے عہد 1749ء تا 1794ء کے دوران طے پایا تھا اس کا کل رقبہ یہی بیان کیا جاتا ہے۔ اور جس وقت برطانوی جاسوس یہاں آئے تو بلوچستان کا کل رقبہ بھی یہی تھا کیونکہ وہ میر نصیر خان کی رحلت کے فوراً بعد یہاں آئے تھے لہٰذا اس خطہ میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا تھا ماسوائے کراچی بندرگا کے، کہ جس پر 1795ء میں تالپوروں نے قبضہ کرکے(13) اسے سندھ میں شامل کردیا تھا، وگرنہ باقی ماندہ بلوچستان اپنی پوری وسعت کے ساتھ قائم و دائم تھا۔ برطانوی جاسوسوں کی مختلف ٹولیوں نے بلوچستان کے مختلف خطوں کی سیاحت کی تھی کوئی ایک جاسوس پورا بلوچستان نہیں گھوما بلکہ ہر ایک کے لئے علاقے مخصوص کیئے گئے تھے۔
ان برطانوی تحریروں میں نسلی وسیاسی تاریخ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حقیقی جغرافیہ کو بھی بری طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ جغرافیائی تقسیم پر بھی یہ آپس میں شدید اختلافات رکھتے ہیں اور نہ تو حقیقی جغرافیہ کو مانتے ہیں اور نہ آپس میں کسی ایک رقبہ پر متفق ہیں۔ اے ۔ڈبلیو ہیوز A.W.Hughes تو بلوچستان کا رقبہ انتہائی بد دیانتی اور بدنیتی کے ساتھ 1,40,000 مربع میل بیان کرتا ہے (14) جس میں 80,000 قلاتی بلوچستان جبکہ 60,000 ایرانی بلوچستان کا رقبہ لکھتا ہے(15) اور افغانی بلوچستان کو سرے سے بیان ہی نہیں کرتا۔ ایسے غیر منطقی اور غلط بیانات سے تاریخ شدید متاثر ہوتی ہے اور مستقبل میں اس سے کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔