پاگل بوڑھی عورت؟ – سفر خان بلوچ

1000

پاگل بوڑھی عورت؟

تحریر: سفر خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں چیخ رہا تھا، وہ ہنس رہی تھی، چیخنے کی وجہ سے میری آواز بیٹھ چکی تھی، مگر وہ میرے سامنے کھڑی ہنستی جارہی تھی۔ اس وقت میں اس الجھن میں تھا کہ وہ اپنی بے بسی پہ ہنسی رہی ہے یا میرے کمزوریوں پہ؟ یا وہ اپنی ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے؟

میں چیختا رہا یہ لاش آپ کے بیٹے کی ہے، وہی بیٹا جسے آپ نے اپنے کوکھ میں نو مہینے تک اپنا خون پلایا ہے تاکہ وہ زندہ رہے، پیدا ہونے کے بعد اپنی خوشیوں کو اس کے حصے میں ڈالا، آپ خالی پیٹ سونے کو اپنے لئے گوارہ سمجھتے تھے مگر اسے بھوکا سونے نہیں دیتے تھے، جو خواب آپ نے دیکھا ہے، وہ تمام خواب اس میت کے ساتھ ختم ہوئے ہیں، اب یہ زندہ نہیں رہا ہے، اس بات کو سمجھ لو آپ کیوں نہیں سمجھتے ہو؟ یہ وقت رونے کی ہے آپ ہنس رہے ہو۔ مگر وہ مجھے نہ سننے کو تیار تھی نہ ہی مجھے سننے کی کوشش کر رہی تھی۔

میں دوبارہ چیختا ہوا بول پڑاآپ مجھے کیوں الجھن میں ڈال رہے ہو کہ میں ماں کی ممتا پہ شک کروں۔ اے خدا یہ میں کیا بول رہا ہوں، توبہ استغفراللہ! پاگل بوڑھی عورت آپ ایک ماں ہو مائیں کھبی اس طرح جلاد نہیں ہوتی، میں یہ بات ماننے کے لئے تیار ہوں آپ ماں ہو مگر یہ جلاد پن کیسی ہے؟ میں اپنا ہوش کھو رہا ہوں، اس سے پہلے کہ میں بے قابو ہوجاؤں آپ اس بات کو تسلیم کریں کہ یہ لاش آپ کے بیٹے کی ہے اوراس وقت میں آپ سے جو توقع کر رہا ہوں، اگر کوئی ماں اپنے بیٹے کی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھے اس کے تاثرات کیا ہونگے؟ مجھے وہی تاثرات دیکھنے ہیں۔ آپ کو یہ بات تسلیم کرنی ہے کہ یہ لاش آپ کے بیٹے کی ہے اور وہ تمام خواب اور سپنے جو آپ کے بیٹے کے ساتھ وابسطہ تھے وہ سب ختم ہوگئے۔ وہی سپنے جو آپ برسوں سے دیکھتے آرہے ہیں، وہی خواب جو آپ نے شادی سے پہلے بھی شاید دیکھی ہونگی، وہ سب ختم ہوگئے، اس لاش کو تھوڑی دیر بعد لحد میں اتاری جائیگی، سو من مٹی اس پہ چڑھائی جائیگی جس کے بعد آپ کو اس کا دیدار تک نصیب نہیں ہوگا اور ان تمام چیزوں سے یقیناً آپ واقف ہی ہونگے، پھر یہ پاگل پن کیسی ہے؟

میں اس وقت آخری حد تک کوشش کر رہا تھا کہ اسکے جذبات کو ہلا دوں مگر وہ تھا کہ بس ہنستی جا رہی تھی خوشی سے وہ پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اے خدا یہ پاگل بوڑھی عورت اپنی ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے، آس پاس کوئی نہیں کہ اس پاگل بوڑھی عورت کو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائے۔

ایک بار پھر میں نے منہ اس عورت کی طرف کیا اور کہا خداکے لئے رو لو، ایک بار رو لو تاکہ آپ کے آنسو نکل آئیں اور آپ کا دل ہلکا ہو، یہ پاگل پن آپ کو جینے نہیں دے گا۔ بوڑھی عورت بڑے شائستگی سے کہتی ہے خوشی کے موقع پہ آنسو اچھے نہیں لگتے، اور اس طرح کے موقعوں پہ ہرگز ہی نہیں جہاں پہ پوری قوم دلہے کو سجا رہا ہو۔

اب مجھے یقین ہوگیا آپ اپنی ذہنی توازن کھو بیٹھی ہو، یہ شادی نہیں آپ کے بیٹے کی میت ہے، ہم شادی پہ نہیں آپ کے بیٹے کی میت پہ آئے ہیں، کب سے میں آپ کو یہی سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں، اب اس بات کو سمجھ لو یہ شادی نہیں آپ کے بیٹے کی میت ہے اور یہاں پہ کوئی قوم اور قومیت زندہ نہیں رہا ہے یہاں پہ میں اور آپ اکیلے ہیں۔

ایک بار پھر وہ زور، زور سے ہنسنا شروع کردیتی ہے اور کہتی ہے میرا بیٹا تھا، اب پورے قوم کا بیٹا بن چکا اور یہ حق اب مجھ میں نہیں کہ میں اس کے میت پہ رو لوں، میرا بیٹا تب تھا جب میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا اور دلہا بنایا تھا اب وہ پورے قوم کا بیٹا بن چکا ہے اب مجھ میں یہ اختیار نہیں۔

میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کیا بولا آپ نے چار ماہ پہلے آپ نے اس کو دلہا بنایا تھا اور اب چار ماہ بعد اس کی میت آپ کے سامنے پڑی ہے اور ہنس رہے ہو۔ میں اولاد آدم ہوں آپ دختر ِ حوا ہو اور دختر حوا اس قدر جلاد نہیں ہوتی، آپ کیسی ماں ہو، ماں نہیں آپ کیسی عورت ہو؟ کس مٹی سے بنی ہو؟ آپ ایک انسان ہو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو آپ اس طرح کیسے کر سکتی ہو؟ ایک جانور اپنے بچے کی موت پہ آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے اور آپ تو ایک جانور سے بدتر ہو میں اس بات پہ یقین نہیں کرسکتا کہ آپ اپنے ہوش میں یہ تمام کر رہی ہو، آپ پاگل ہوچکی ہو جتنی جلدی ہوسکے آپ اپنے آپ کو کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھاؤ ۔

ایک بار پھر وہ ہنسنا شروع کر دیتی ہے، میں جذباتی ہوکر بولتا ہوں، خدا کے لئے یہ ہنسنا بند کرو، میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔

یہ عشق کی انتہا ہے آپ کیا جانو عشق کسے کہتے ہیں وہ بڑی معصومیت سے بول پڑا۔ کیسی عشق، کونسی عشق، کہاں کا انتہا؟ زمین سے عشق، مٹی کی خوشبو سے عشق، جس نے ہمیں یہ دنیا دی ہے، ماں سے عشق جس کے گود میں ہم کھیل کر بڑے ہوئے ہیں۔

یہ عشقیہ داستانیں کتابوں اور مضمونوں اور افسانو ں میں اچھے لگتے ہیں، عملی زندگی میں ان پہ اترنا ممکن نہیں ناممکن ہے انگارؤں پہ چلنے کے مترادف ہوتے ہیں اور یہ خشک مٹی سے کیسی عشق ہوسکتی ہے، عشقیہ داستانیں ہم نے حانی شے مرید، مست توکلی،حمل ماہ گنج کی سنی ہے اور صحیح معنوں میں انہیں پاگل ہی تصور کر تے ہیں وہ اپنے زندگی کو اسی عشق میں فنا کرکے برباد ہوگئے پاگل ہوگئے۔اور آپ مٹی سے عشق کی بات کر رہے ہو؟

آپ کی سوچ اتنی ہے اور اتنا سوچ سکتے ہو، آپ کا عشق کے بارے میں صرف زلفوں تک سوچ سکتے ہو اور زمین اور مٹی سے عشق کے بارے میں آپ سوچ نہیں سکتے تو آپ کیا سمجھ سکتے ہو یہ بات، آپ کے سمجھ سے اوپر ہے، آپ سے اس بابت بات کرنا ہی بیکار ہے۔

یہ بات کرکے وہ چل پڑی اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔