بَھڑکی گِیان – برزکوہی

571

بَھڑکی گِیان

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

اگر میں کچھ لکھتا یا کہتا ہوں، میرے ذہن کے متفرقات جو بیان کے مختلف اسلوب میں ڈھلتے ہیں، موضوعی و نفسی ہوتے ہیں، جن کی علت داخلی و نفسی ہے۔ اسلوبِ راز ذاتی تجربات، مشاہدات و مطالعہ اور میل جول ہے۔ عمومی حالت میں بطور خیالِ فاعل میں ہی جانتا ہوں کہ میں کوئی چیز کیوں لکھ رہا ہوں یا کیوں کچھ کہتا ہوں۔ اس خیال پر، باقی لوگوں کی آراء کیا ہے، وہ کیا کہتے ہیں، اسے کیا سمجھتے ہیں، اس سے کیا اخذ کرتے ہیں، یا سنتے و پڑھتے تک نہیں، یہ عوامل علتِ خیال اور اسکے بیان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ میں اپنے محدود مشاہدے، تجربے و مطالعے کی بنیاد پر کچھ دیکھ کر، محسوس کرکے، اظہار رائے رکھ سکتا ہوں اور مجموعی سماجی و مجموعی تحریکی کمزوریوں کے حوالے سے تشخیص و نشاندہی بھی کرسکتا ہوں۔ شرط درستگی ہرگز نہیں بلکہ اظہار ہے۔ شاید وہ غلط بھی ہوسکتی ہے، صحیح بھی ہوسکتی ہے۔ میرا نقطہ و زاویہ نظر میں سمجھتا ہوں کسی ایک مخصوص و محدود دائرے پر منتج نہیں بلکہ اپنی ذات سے لیکر پورے سماج و مجموعی تحریک پر مرکوز ہے۔ جب نشاندہی و تشخیص ہوگی، تب کس حد تک میں خود ذمہ دار پایا جاتا ہوں اور علاج و حل نکال سکتا ہوں یا نہیں، یہ ایک بنیادی اور اہم سوال رہے گا۔

ممکن ہے کہ علاج بعد از تشخیص میرے ممکنات کے حد میں ہے، ہوسکتا ہے نا ممکن ہے لیکن بہرصورت ایک بات اپنی جگہ سالم و مقدم رہتی ہے کہ کوئی بھی کمزوری و مرض ہو، چاہے وہ تحریکی و سماجی ہو یا تنظیمی و عالمی جب تک مدلل و مثبت انداز میں اور حقائق کی بنیاد پر اس کی نشاندہی نہ ہو، اس پر بحث نہ ہو، اس پر سوال اور جواب نا ہو، اس وقت تک کوئی بھی سقراط و بقراط یا اختیار دار اس کو نہ حل کرسکتا ہے نہ علاج کرسکتا ہے۔

بنیادی شرط یہی ہوتا ہے کہ تحریکی و سماجی امراض و کمزوریوں کی مدلل، سنجیدہ و علمی بنیادوں پر تشخیص و نشاندہی اس سوچ و نیت کے بنیاد پر ہوکہ ہر جمود و ساکن دل و دماغ کی کوکھ سے سوالات جنم لینے، سوچنے اور غور کرنے کا سلسلہ شروع ہو۔ ہمیشہ سوچنے، غور کرنے اور سوالات ہی سے بحث و مباحثہ، تحقیق و تخلیق اور علم کا جستجو پیدا ہوتا ہے، اسی میں ہماری سماجی و تحریکی امراض و کمزوریوں کی بہتری و علاج کے لیئے سب سے پہلے راہ ہموار ہوگی، پھر تب جاکر بہتری و علاج ممکن ہوگی۔

اب یہ کون کریگا؟ کیسے کریگا؟ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اختیاردار کون ہے، کون نہیں یہ بعد کی بات اور الگ بحث ہے، پہلے تشخیص و نشاندہی اور حل و علاج کی راہ ہموار ہو، نشاندہی و تشخیص اور علاج و بہتری کی راہ ہموار کرنے سے قبل نہ مریض شفایاب ہوگا، نہ ہی ذہنی طور مطمئین ہوگا اور نہ ہی اپنے مرض کو مان کر اور جان کر اس کے علاج کے لیئے کوشش کریگا، تو اسی بنیاد و شرط، نیت و فارمولے کے تحت کچھ کہنا، کچھ لکھنا ہے اسکے علاوہ اور کچھ نہیں۔ باقی اس میں کوئی فلسفہ جھاڑنے اور تھیوری پیش کرنے یا رسم تحریر پورا کرنے، خواہ مخواہ دانشور بننے، نام و سستی شہرت کمانے وغیرہ وغیرہ کی نا ضرورت ہے نا ارداہ، اور نا ہی کچھ لکھنے کو کوئی قرض و فرض سمجھ کر تحریک و قوم پر بڑا احسان جتا کرانگلی کٹا کر شہیدوں میں شمار ہونے کی کوشش ہونا ہے، ایسی کوئی بات نہیں، پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں۔

ادھر ادھر باتوں کو گھما گھما کر پھر یہاں آکر رک جاتا ہوں، ہمارے بلوچ سماج، بلوچ سیاست اور بلوچ تحریک میں کوئی اگر اس کو بدبختی کہے، مگر میں اس کو بدبختی نہیں بلکہ کم علمی کہتا ہوں کیونکہ کم علمی سے بدبختی جنم لیتا ہے نہ کہ بدبختی سے کم علمی۔۔۔

المیہ یہ ہے کہ آج تک مکمل پرامید اور پرتوقع رہنے کے باوجود، مجھے ایک بھی مکمل علمی و سیاسی بندہ نہیں مل رہا ہے، لیکن سب کے سب سیاسی اور سب کے سب علمی ہیں، پھر بھی پرامید اور پر توقع ہوں کیونکہ قومی جنگ خود ایک بھٹی ہے وہ چلے گی جاری و ساری رہیگی، وہاں سونا تپ تپ کر کندن بنتا جائیگا، جنگ جاری ہے اور جاری رہیگی، یہی امید و توقع ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

ابھی اس نقطہ نظر سے ایک بار نہیں ہزار بار اختلاف رکھا جاسکتا ہے، اس پر بحث بھی ہوسکتی ہے، جواب میں ٹھوس ردِ دلائل بھی دیئے جاسکتے ہیں، تنقید بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن، نفرت، غصہ، نقطہ چینی، حسد، بغض، جلن، ناراضگی، لاتعلقی، بہانہ بازی، اوٹ پٹانگ دلائل یا پھر جذباتی، جنونی، نفسیاتی محدود سوچ کا اظہار، انا، ضد، ہٹ دھرمی وغیرہ کے الزامات و القابات نوازے جاتے ہیں کیوں؟ کیونکہ پھر وہی بات ہوئی کہ ہماری سماج و سیاست ابھی تک علمی و سیاسی بیگانگی کا شکار ہے۔

یہ کم علمی کی انتہاء نہیں ہوگی کہ چند کتابوں کو رٹنے یا کچھ لکھنے کے بعد، پھر باتوں، انداز، رہن سہن، چلنے پھرنے، کھانے پینے، سونے کے انداز تک میں سارتر، فینن، پاولوفریرے، گورکی، گارشیا مارکیز وغیرہ کی نقالی شروع کردی جاتی ہے؟ یا پھر کسی مجلس میں بیٹھ کر ایک بار باتوں میں لگ جاتے ہیں تو پھر کبھی مشرق، کبھی شمال، کبھی آسمان، کبھی زمین کو ایک کردیتے ہیں، عالمی سیاست، ادب، مذہب، فلسفہ، جنگ، تاریخ سب کے سب کا خانہ خراب کرکے پھر بھی خوش و خرم ہیں کہ ہم سیاست دان، ادیب، فلاسفر، لیڈر و دانشور ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسے کرداروں پر کوئی ہنسنے والا یا مذاق اڑانے والا تک نہیں ہے، اس لیئے سب ہی ایسے ہیں، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اگر کسی شخص نے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا ہے تو اس شخص کے لیے پانچویں کلاس کا طالب علم بھی عالم ہوتا ہے، ہمارا حال بھی یہی ہے، بے شک ہم نے سارتر، فینن، لینن چے گوئرا، ماؤ، کیبرال وغیرہ کو پڑھا ہے مگر سمجھا نہیں ہے بلکہ نہیں سمجھتے ہوئے بھی ہم سارتر، فینن، لینن اور چے وغیرہ بن چکے ہیں، سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔

ہمارے علمی پیمانے کے حدوحدود کی واضح علامت یہ ہے کہ آج تک عالمی معیار کا کوئی ایک دانشور، صحافی، ادیب و شاعر، مورخ وغیرہ کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ اگر ہم ذرا بھی حقیقت پسند بنیں، تو یہی تلخ حقیقت ہے، نہیں تو تصورات و خلاء میں ڈھول پیٹتے رہیں، کوئی مسئلہ نہیں، جیسے تھے ویسے رہینگے۔

میرا کہنے کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ چندتلخ حقائق کو بیان کرنا ہے، اگر یہ حقائق ہم ہضم کرلیں تو پھر ہم سیاست و دانشوری کے لکڑی کے گھوڑے سے آرام سے اتر کر دن و رات محنت و جستجو اور ہمت کرکے، اس حد تک یا اس سے بڑھ کر ضرور آگے ہونگے کہ جہاں آج دیگر اقوام کھڑے ہیں، وگرنہ “تو منا ملا بگو من تر حاجی گوشاں” اسی سوچ میں مبتلا تھے اور مبتلا رہینگے لیکن کب تک؟

میرا پختہ عقیدہ بلکہ یقین ہے کہ قومیں جنگوں سے تیار ہوتے ہیں، جب قربانی ہوگی، جنگ ہوگا، اس سے ذہنی و فکری تربیت و ذہن سازی ہوگی، تو اعلیٰ پائے کے سیاسی کارکن، ادیب و دانشور، صحافی خود جنگ کے خونی شعلوں سے جنم لینگے، خدا نخواستہ جنگ جمود یا سرد مہری کا شکار ہوا تو منجمد سماج پیدا ہوگا، جمود خود لاعلمی و بیگانگی کی ماں ہوتی ہے۔

کہنے کا مطلب واضح سادہ اور صاف ہے، ہمیں حقیقت پسند بننا اور حقائق کو سمجھنا ہوگا، مینڈک اور کنویں والے سوچ سے نکلنا ہوگا، ہم سیاسی کارکن، لیڈر و سپاہی، صحافی، جہدکار، شاعر و ادیب، گلوکار، دانشور، مورخ، کمانڈر، استاد، تنقید نگار، افسانہ نگار، سفارتکار وغیرہ اگر ہیں تو کہاں تک ہیں؟ کیسے ہیں؟ یہ پیمانہ اٹھانے، پرکھنے، جاننے، سمجھنے کے بنیادی اصول کی خاطر ہمیں ضرور یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ کے حوالے سے ہمارا کردار کیا تھا اور کیا ہے؟ وہ بھی ایمانداری سے کس حد تک اطمینان بخش ہے؟ ہر دن کی اختتام پر یہ ضرور سوچیں کہ ہم نے آج قومی جنگ کے حوالے سے کیا کِیا؟ ہم اپنی کماحقہ ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں یا نہیں؟ پھر جاکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔

دنیا بھر کے دوسرے تحاریک میں جو ہستیاں تھیں، صرف ان کے بارے میں رٹے بازی کی حد تک مطالعہ نہیں یا بطور ان کو ٹارزن کی طرح بیان کرنا نہیں بلکہ اپنے کردار کے ساتھ موازانہ کرنا کہ میں کہاں پر کھڑا ہوں اور وہ کہاں پر تھے؟ پھر شاید دعوے اور بھڑک بازی کی روایت ہمارے ہاں فوت ہوجائے اور ہم اصل حقائق کی طرف لوٹ سکیں۔

تحریک آزادی کی جنگ میں ایک متحرک کردار و عمل نبھائے بغیر، محض خالی خولی خوبصورت باتوں، دعووں، تاثرات وغیرہ کی حد تک شاید ایک قلیل مدت تک ہم کچھ کم علم، کم ذہنیت کے کچھ لوگوں کو متاثر رکھ سکیں، لیکن یہ آنکھ مچولی دیرپا ثابت نہیں ہوسکتی، لیکن جب لوگوں میں ذرا بھی سمجھ و شعور پیدا ہوا، تو یہ آپکو گھاس ڈالنے کے بھی لائق نہیں سمجھیں گے، اگر عقل و شعور کا قحط اسی طرح جاری رہا تو پھر عیش کرو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔