دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 15 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (نواں حصہ)
بلوچستان میں جاسوسی دور کے اختتام پر یہاں باقاعدہ برطانوی نمائندوں کی تعیناتیاں ہونے لگیں اور یہ سلسلہ بالآخر تقسیم ہند آزادی بلوچستان اور قیام پاکستان تک چلتا رہا۔ اس دوران ان سرکاری نمائندوں نے کہ جن کا تذکرہ ہوا کہ وہ یا تو فوجی یا سول افسر ہوتے تھے بلوچستان، افغانستان، ایران اور گردونواح کے بارے میں تصینفات رقم کیں اور کافی حد تک ان خطوں کے بارے میں مواد فراہم کیا مگر درست حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام تر مواد سامراجی مقاصد کے لئے تحریر کئے گئے جن کے پڑھنے سے برطانوی عزائم کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ لہٰذا ان تحریروں میں سے اکثر ناقابل بھروسہ ہیں اور بعض تحریروں کے کچھ حصے یا بعض بیانات حقائق سے ہٹ کر ہیں اور یہی غیر حقیقی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز بیان انہیں استناد سے محروم کرتا ہے ۔
بلوچستان میں برطانوی اثرونفوذ کے بعد کئی برطانوی افسران اس خطے میں آئے اور اپنی اپنی نوکریوں کے چند سال یہاں گزارے لہٰذا ان میں سے بعض نے تصینفات رقم کیں اور کچھ نمائندوں کے بارے میں دیگر اہل قلم نے تحریر کیا۔ ایڈورڈ ۔ ای آلیور بھی انہی افسران میں سے تھا کہ جو بلوچ اور پشتون خطوں میں اپنے سرکار کے حکم سے خدمات بجالارہا تھا اس نے بھی مورخ نہ ہوتے ہوئے بننے کی کوشش کی اور بلوچ و پشتون قبائل کی نسلی تاریخ پر طبع آزمائی شروع کی اور پیش روئوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تقسیم کرو کی پالیسی پر عمل پیر ا رہا۔ اس نے ان اقوام و قبائل کی تاریخ کو نئی سمت میں لے جانے کی کوشش کی اور اسے زیادہ سے زیادہ گنجلک بنانے کی سعی کی(44) اے ڈبلیو ہیوز بھی ان برطانوی جاسوس نما افسروں میں سے تھا کہ جنہوں نے بلوچستان میں برطانوی سامراج کی خدمت کے لئے کافی عرصہ گزارا اور یہاں کے بارے میں سیاسی، جغرافیائی، نسلی، عسکری اور معاشرتی معلومات برطانوی حکومت کو فراہم کرتا رہا۔ انہوں نے بلوچستان کے مختلف حصوں کی سیاحت کی اور مختلف راستوں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے مکران کی سیاحت کی اور اس کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کیں(45) انہوں نے درہ مولہ کے مشکل سفر کو بھی منزل بہ منزل عبور کیا اور ہر منزل کی کہانی و روداد لکھی اور درہ مولہ کے لاتعداد عجائبات کا تذکرہ بھی کیا(46) علاوہ ازیں انہوں نے لسبیلہ و سراوان و ایرانی و افغانی بلوچستان کے بارے میں بھی بے تحاشا معلومات فراہم کیں باقی برطانوی تحریروں کی نسبت اے ڈبلیو ہیوز کی کتاب The Country of Balochistan زیادہ جامع معلومات فراہم کرتی ہے اس کا اردو ترجمہ پرفیسر ایم انور رومان نے سرزمین بلوچستان کے نام سے کیا ہے اور نساء ٹریڈرز کوئٹہ نے اسے شائع کیا ہے(47) مگر اس خطے کے بارے میں تحریر شدہ یہ مواد بھی اغلاط سے مبرا نہیں ہے اور بعض تاریخی نوعیت کے واقعات اس میں شامل نہیں کیئے گئے یا پھر ان کا بھی باقی برطانوی مورخین کی طرح عمداً تذکرہ نہیں کیا گیا، جیسا کہ بلوچستان کا رقبہ لکھتے وقت وہ احتیاط سے کام نہیں لیتا اور ایرانی، افغانی اور قلاتی حصوں کو ملا کر ان کا کل رقبہ 1,40,000 ایک لاکھ چالیس ہزار مربع میل رقم کرتا ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔ اس طرح کے کئی بنیادی غلطیاں ان کی کتاب میں بھی ملتی ہیں بہرحال علاقہ جاتی طور پر انہوں نے کافی حد تک بلوچستان کی اہم گذر گاہوں کا بہترین تذکرہ کیا ہے اور ان کی تحریروں سے ہی ان کے فوجی ہونے اور فوجی مقاصد کے لیے کام کرنے کی نمائندگی ہوتی ہے۔
لانگ ورتھ ڈیمز نے بلوچستان اور بلوچ قوم و بلوچی زبان و ادب پر بے تحاشا کام کیا اور انہیں مسلسل شائع کروانے کے ساتھ کتابی شکل بھی دی، ان کی مشہور کتابوں میں بلوچ ریس Baloch Race اور Popular Poetry of Baloches قابل ذکر و قابل ستائش ہیں جن سے بلوچی زبان و ادب اور نسلی تاریخ پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بلوچ نسلی تاریخ پر رائے دی اور کام کیا بلکہ شاہنامہ فردوسی کے کوچ و بلوچ اور رندولاشارعہد کی بلوچی شاعری کو بھی اپنا موضوع بنایا ۔رندولاشارعہد کی بلوچی شاعری جو کہ صدیوں سے زبانی کلامی چلی آرہی تھی اور بلوچوں نے کبھی بھی اسے یکجا کرکے کتابی شکل دینے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ ڈیمز نے کوشش بسیار کے بعد اس دور کی شاعری کا ایک بڑا حصہ جمع کیا اور انہیں انگریزی میں ترجمہ، شرح و بسط کے ساتھ 1907ء میں شائع کیا۔ بعد ازاں ان کی اس مشہور کتاب کو بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے پاپولرپوئیٹری آف بلوچز کے نام سے شائع کیا(48) تو ڈیمز کے بعد اس موضوع پر لاتعداد بلوچ اہل علم و قلم اور دانش وروں نے بھی قلم آزمائی کی اور رندولاشارعہد کی شاعری کے ایک بڑے حصے کو ضبط تحریر میں لاکر اس اہم خزانے کو ہمیشہ کے لئے محفوظ و مامون کردیا۔ ان دانش وروں میں شیر محمد مری کی بلوچی کہنیں شاعری(49) جسٹس میر خدا بخش بجارانی مری کی بلوچی کہنیں شاعری(50) اور کئی دیگر اہل قلم شامل ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔