دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 12 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (چھٹا حصہ)
پوٹینگر اپنی کتاب میں ایک اور تاریخی غلطی کرتا ہے اور بلوچستان کو بلوچوں کے لئے نادر شاہ کے عطیہ سے منسوب کرتا ہے لکھتا ہے کہ :
’’ یہ سارا بسیط علاقہ کسی وقت خان قلات کے والد نصیر خان کی مملکت تھا جو اسے ایرانی فاتح نادر شاہ نے 1739میں عطا کیا تھا اور اسے بیگلر بیگ بلوچستان کا لقب بھی دیا تھا ۔‘‘(30)
یقینا اس ایک بیان میں بہت ساری غلطیاں ہیں یعنی یہ کہ میر نصیر خان 1739ء میں نادر شاہ کے پاس بطور یرغمالی شہزادے کے موجود تھا اور وہ 1749ء میں قلات میں برسراقتدار آیا جبکہ نادر شاہ افشار 1747ء میں اپنے بھتیجے کے ہاتھوں ایران میں قتل ہوا اور بیگلربیگی کا خطاب نصیر خان کو خلافت عثمانیہ نے عطا کیا تھا نہ کہ نادر شاہ افشار نے ۔جبکہ میرعبداللہ خان 1731ء میں کلہوڑوں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا تھا اور ان کے بعد ان کے بیٹے میرمحبت خان کو خان بنایا گیا تھا کہ جسے اس کے بھائی میر اہلتاز خان نے 1733ء میں معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا البتہ میر محبت خان نے1736ء میں نادرشاہ کی حمایت سے اہلتاز خان کو معزول کردیا اور اقتدار دوبارہ اپنے قبضہ میں کرلیا تھا۔ علاوہ ازیں بلوچ قبائل اس سارے خطے میں کہ جو موجودہ وقت تین مختلف ممالک پاکستان ایران اور افغانستان میں منقسم ہے اور پاکستان میں اس کے بعض حصے صوبہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی شامل کئے گئے ہیں، عرصہ دراز بلکہ زمانہ ماقبل از مسیح سے آباد ہیں اور آرین حملوں کے وقت بھی وہ اپنے ان ہی مخصوص علاقوں میں آباد تھے تاریخ میں قدیم ایرانی خاندانوں سے لیکر تاحال بلوچوں کا ذکر اسی سرزمین پر تسلسل کے ساتھ ملتا ہے۔ تاریخ کی کئی مستند کتب مثلاً شاہنامہ فردوسی، تاریخ سیستان (فارسی) کتاب الممالک المسالک، صورۃ الارض، تاریخ ابن خلدون، تاریخ ہیروڈوٹس، ایرین اور سٹریبو کی تواریخ، سکندر کے سفرنامے سے متعلق کتب، ہنحا منشی، ساسانی، عرب اور وسط ایشیائی غزنوی، سلجوقی اور غوری خاندانوں کی تواریخ، حتیٰ کہ کئی دیگر مشہور و معروف کتب تواریخ میں بلوچوں کا ذکر تسلسل کے ساتھ ملتا ہے اور ہر دور میں مورخین نے انہیں موجودہ جغرافائی حدود کے اندر بیان کیا ہے اور ساتھ ہی ان کے جنگی کارناموں سے بھی تاریخ کے صفحات مزین ہیں۔لہٰذا پوٹینگر کی یہ رائے کہ یہ علاقے نادر شاہ افشار نے بلوچوں کو عطیہ کیے سراسر بے بنیاد اور تاریخی حقائق کے منافی ہے ۔
اس طرح کی کئی تاریخی اغلاط ان مغربی مورخین کی کتب میں ملتی ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کتب کا استناد متاثر ہوتا ہے اور محققین ایسے مواد کو قابل بھروسہ نہ سمجھ کر انہیں درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ دراصل یہ برطانوی بہروپیے بنیادی طور پر فوجی تھے اور ان کا علم تاریخ سے دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس علم کے ابجد اور طریقہ کار سے واقف تھے نہ ہی وہ تاریخی تحقیق کا فن جانتے تھے اور نہ کبھی انہوں نے تاریخ نویسی کی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تاریخی واقعات بیان کرتے وقت یا نسلی تاریخ تحریر کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا حوالہ نہیں ملتا اور نہ ہی انہوں نے اس کے لئے کسی حوالے کی ضرورت محسوس کی ۔
اس سلسلے میںایک مصنف لکھتا ہے کہ،
’’یوں تو بلوچوں کی نسلی اصلیت کے بارے میں مختلف مؤرخین نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ان میں سے ہر ایک نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے کہ بلوچوں کے اصل نسلی ماخذ کو اجاگر کیا جاسکے اس مقصد کیلئے ان مؤرخین نے دلائل کے ساتھ اپنی رائے دی ہے مگر یہ تمام مؤرخین کسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہیں بلکہ اولاً یہ کسی ایک مخصوص نسلی گروہ سے بلوچوں کا نسلی تعلق بیان کرتے ہیں دوئم یہ تمام آراء غیر سائنسی اور غیر تحقیقی طریقہ کار کے مطابق ہیں جو صرف بلوچوں کا ایک سرسری جائزہ لیکر بیان کیا گیا ہے کبھی تاریخ کے نہ تو قدیم اوراق پلٹ کر دیکھنے کی زحمت کی گئی اور نہ ہی ان کا تاریخ سے قبل کی تہذیب کے ساتھ تعلق کے امکانات دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اگر ان کا ماضی بیان کیا گیا تو صرف چند لوکل اشعار یا زبانی روایات کو مد نظر رکھ کر ان کا جائزہ لیا گیا اور کہیں اگر ماضی کے الفاظ کی روشنی میں ان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی تو ماضی میں ادا کئے گئے الفاظ کا مفہوم غلط سمجھا گیا اس طرح ہر مورخ نے انھیں مختلف نسلی گروہوں سے منسلک کیا۔
ان اختلافات کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ بلوچوں کے اپنے مؤرخین سے قبل ان کے نسلی ماخذ پر غیر ملکیوں اور غیر بلوچوں نے رائے زنی کی ہے جسے کسی بھی طرح سے معتبر اور درست قرار نہیں دیا جاسکتا اور جب بلوچ مؤرخین نے اپنی تحقیق شروع کی تو انھوں نے سند کے طور پر غیر ملکی اور خاص کر برطانوی مواد کو سامنے رکھ کر اپنی تاریخ رقم کی ہے۔ اب یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برطانیہ نے کبھی بھی ایشیائی اقوام کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا۔ اس نے اپنے مفتوحین کی ایسی تاریخ رقم کی جس نے ان کو مستقبل میں ایک لا حاصل بحث میں مبتلا کرکے اختلافات کا شکار بنا دیا۔
بلوچوں کی تاریخ کو صرف برطانیہ نے ہی نہیں بگاڑا بلکہ یہ تو ہر فاتح کا وطیرہ رہا ہے اس نے جب بھی کسی مفتوح قوم کی تاریخ لکھی ہے تو اس میں مفتوح کا خون بطور روشنائی اور اپنی تلوار کی نوک بطور قلم استعمال کرتے ہوئے الفاظ رقم کی ہے ایسی تواریخ میں مفتوح کے خیالات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور وہ جس طرح چاہے مفتوح کی تاریخ کو مسخ کر سکتا ہے اس پر کوئی روک ٹوک لاگو نہیں ہوتا۔ عرب، ایرانی اور برطانوی وغیرہ چونکہ فاتحین تھے اور انھوں نے بلوچوں کی سرزمین کو بزور شمشیر فتح کر لیا تھا اور چونکہ بلوچوں نے ان فاتحین کے خلاف لمبی اور زبردست مزاحمت بھی کی تھی اس سے فاتحین نے ان پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد انھیں ڈاکو، جنگلی، لٹیرا، غیر مہذب، وحشی اور نجانے کتنے القاب و خطابات دے ڈالے یہ فاتح اقوام کی خاصیت رہی ہے کہ وہ اپنے مفتوح کو کبھی بھی قابل رحم نہیں سمجھتا اور اس طرح مفتوح کی جو بھی تاریخ رقم ہوتی ہے اس میں مفتوح کی رائے کا فقدان ہوتا ہے اور فاتح کی رائے ہمیشہ مقدم رکھی جاتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔