بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 11 – برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد

395

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 11 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (پانچواں حصہ)

قلات میں کچھ عرصہ مزید قیام کرنے اور ضروری معلومات جمع کرنے کے علاوہ اگلی منزل اور راستوں کا تعین کرنے کے بعد یہ بہروپیئے اپنے سامان تجارت، ہندو گماشتوں اور افغان تاجروں سمیت آگے نکل گئے۔ حتیٰ کہ پورے بلوچستان اور سیستان کی سیاحت کی اور ہر جگہ کے بارے میں ضروری معلومات اکٹھا کرتے رہے  یہ لوگ نوشکی اور قندھار بھی گئے اور وہاں کے معاشرتی حالات کے ساتھ ساتھ دفاعی استحکامات اور انتظامات کا بھی جائزہ لیا۔ وہ جہاں جاتے وہاں کے معتبرین تک رسائی حاصل کرتے۔ ان کی محفلوں میں بیٹھتے اور ان سے اپنے مقاصد سے متعلق معلومات حاصل کرتے۔ تجارتی رستوں، اہم شہروں اور قصبوں، قبائل اور ان کے طرز عمل، پانی اور خوراک کے ذرائع وغیرہ کے بارے میں معلومات اکٹھا کرتے۔ ایسے لوگوں سے ملتے کہ جنہوں نے ان کے مطلوبہ علاقوں میں سیاحت کی ہوتی۔ وہ ایسے لوگوں سے مختلف قسم کے سوالات کرتے اور ضروری معلومات حاصل کرتے اور ان معلومات کی روشنی میں اپنے آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیتے ۔

            کیپٹن چارلس کرسٹی اور لیفٹیننٹ ہنری پوٹینگر کے راستے نوشکی سے الگ ہوگئے اور کیپٹن کرسٹی 22 مارچ 1810ء کو نوشکی سے کرمان کے لئے روانہ ہوا جبکہ ہنری پوٹینگر 25 مارچ 1870ء کو نوشکی سے ہرات کی جانب روانہ ہوا۔ قدم قدم پر ان کی مہمان نوازی بلوچ قبائلی معتبرین کر رہے تھے مگر وہ بے قصور تھے کیونکہ ان مکار انگریزوں نے مسلمان تاجروں کا بہروپ بھرا تھا اور وہ اپنے سرخ و سفید چہروں سے ایرانی یا وسط ایشیائی مسلمان لگتے تھے۔ ان کی رہنمائی اور مالی مدد ہندو ساہو کار اور گماشتے کررہے تھے کہ جنکی جڑیں بمبئی میں پیوست تھیں۔ اس پورے کھیل میں ماسوائے چند لوگوں کے بہروپیوں کا اصل کردار کسی کو معلوم نہ تھا حتیٰ کہ تمام ضروری معلومات جمع کرکے یہ دونوں بحفاظت بلوچستان کے حدود سے نکل گئے۔ کیپٹن کرسٹی بعد ازاں 31 اکتوبر 1812ء میں روس ایران سرحد پر روسی دستے کے ایک حملے میں مارا گیا۔ جبکہ پوٹینگر افغانستان سے کرمان، سینا، کرمان شاہ ہوتے ہوئے بغداد اور بالآخر 6 فروری 1811ء کو بمبئی پہنچا۔ (23) کرسٹی کے مرنے کی اطلاع بھی اسے یہیں پر ملی۔

             تاریخ کا ستم ازل سے جاری ہے اور ہمیشہ طاقتور اور مادی طورپر مضبوط اقوام وممالک مزید وسائل پر قابض ہونے، اپنے جغرافیائی حدود کو بڑھانے اور نمبر ون آنے کی دوڑ میں لگی رہتی ہیں۔ انہیں پر امن اور غیر جانبدار ممالک و اقوام پر قابض ہونے کے لئے محض بہانے چاہیے ہوتے ہیں۔ یہ طاقتور اور سامراجی عزائم رکھنے والے ممالک اُن ممالک میں جہاں یہ قابض ہونا چاہتے ہیں سب سے پہلے اپنے جاسوس بھیجتے ہیں جو مطلوبہ اور ضروری معلومات اکھٹا کرنے کے ساتھ ساتھ ان خطوں میں اندرونی توڑ پھوڑ کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں اور لوگوں کی خرید و فروخت بھی کرتے ہیں ۔

            پوٹینگر اور کرسٹی کو ہم اولین جاسوس کہہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے تحریری ریکارڈ شائع کروائے۔ گو کہ ان سے بہت قبل عباسی دور میں لاتعداد عرب سیاحوں نے بھی اس خطے کی بھرپور سیاحت کی اور اپنے تحریر میں یہاں کے بارے میں بے شمار معلومات فراہم کیں مگر وہ جاسوس نہیں بلکہ صرف سیاح تھے البتہ کافی حد تک ان کی تحریروں سے بھی فاتح ہونے کی بو آتی ہے۔ جبکہ پوٹینگر کو باقاعدہ ایک مشن پر بھیجا گیا تھا اور اس کا مقصد ہی فوجی نوعیت کی معلومات فراہم کرنا تھا  اپنے اصل مقصد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس فوجی نے بلوچ تاریخ اور ثقافت پر بھی ناکام طبع آزمائی کی اور اپنی تحریر میں بہت سی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس نے بلوچ کی تشریح ناکام طور پر صرف نسلی بنیاد پر کرنے کی سعی کی اور براہوئی کو بلوچ سے الگ کرنے کی کوشش کی اور یہ تفریق اس نے صرف زبان کے اختلاف سے پیدا کرنے کی جسارت کی 24) ( حالانکہ وہ یہ بھول گیا کہ جس قلات میں وہ کئی دن رہا اور جس کا اس نے انتہائی دقیق اور عمیق طرح سے جائزہ لیا وہاں کا حکمران براہوئی خانوادہ سے تعلق رکھتا ہے اور وہ خان بلوچ کہلاتا ہے نہ کہ خان براہوئی یا خان بلوچستانی۔ وہ تو اپنی قومی شناخت کو ظاہر کرتے ہیں نہ کہ قبائلی یا علاقائی شناخت کو ان خوانین کے مقبروں پر بھی خان بلوچ کے الفاظ تحریر ہیں اور ان کے مہروں پر بھی خان بلوچ تحریر ہے(25) حالانکہ پوٹینگر کی تحریر سے قبل لفظ براہوئی کسی بھی مستند تاریخی مسودے یا کتاب میں نہیں ملتا البتہ ہزاروں سال قبل یونانیوں نے اس خطے کو اریبوئی یا اربوئی تحریر کیا اور اس میں رہنے والے قبائل کو بھی اربوئی یا اریبوئی لکھا حتیٰ کہ ان کے پانی کا وسیلہ بھی اریبیئس (دریائے پورالی) کہلاتا تھا (26) یقیناً اس شاطر اور مکار انگریز نے اسی لفظ کو الٹ پلٹ کر براہوئی بنادیا اور زبان کو بنیاد بنا کر ان قبائل کے اجتماع کو توڑنے کے لئے انہیں بلوچ اور براہوئی میں تقسیم کیا۔ یقیناً ماہر لسانیات بہتر طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آیا لفظ اربوئی یا اریبائی یا اریبوئی (جسے انگریزی میں Ariboi تحریر کیا گیا ہے)27) (آسانی کے ساتھ لفظ براہوئی میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ میرگل خان نصیر (28) اور بعض دیگر دانش ور لفظ برزکوہی کو براہوئی کی ابتدائی شکل کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اگر لفظ برزکوہی براہوئی میں تبدیل ہوسکتا ہے تو لفظ اربوئی، براہوئی میں کیوں تبدیل نہیں ہوسکتا جبکہ اول الذکر میں صوتی پیچیدگیاں بھی بہت ہیں جبکہ ثانی الذکر میں تبدیلی کے وقت بظاہر بڑی پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ اس نام کے تاریخی ماخذ اور مستند ذرائع بھی موجود ہیں جبکہ لفظ برزکوہی کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔ ایک اور مستند ذریعہ اس خوبصورت اور قدیم تفریح گاہ کو بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو اربوئی نامی پہاڑ میںاربوئی کے نام سے واقع ہے۔ یقینا یہ دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پوٹینگر کے آنے سے براہوئی اور بلوچ کے حوالے سے نہ تو بلوچستان میں تاثر موجود تھا اور نہ ہی ایسا کوئی تاریخی حوالہ ملتا ہے یقیناً یہ اسی شاطر اور مکار جاسوس کی سازش تھی کہ مستقبل میں اپنی فوجوں کا راستہ ہموار کرنے کی خاطر اگر بلوچستان میں خانہ جنگی کی آگ لگانے کی ضرورت پیش آئی تو اس کے لئے جواز پہلے سے موجود ہونا چاہیے ۔ اس مکار نے ہر طرح سے بلوچ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور بلوچوں کو صرف تین قبائل یعنی ناہروئی، رند اور مگسی تک محدود کیا (29)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔