دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 10 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (حصہ چہارم)
قلات ان جاسوسوں کا اصل مرکز تھا اور وہ بلوچ دارالحکومت کے بارے میں تمام تر معلومات حاصل کرکے اپنے افسروں کو بجھواتے تھے اور بظاہر وہ مسلمان اُزبک گھوڑوں کے سوداگر تھے جیسا کہ کرسٹی نے ایک افغان غلزئی اونٹوں کے تاجر کو کہا تھا کہ :
’’ ہم ایک ازبک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو کچھ زمانہ قبل ہندوستان میں آباد ہوگیا تھا وہ اس جواب پرمطمئن ہوگیا اور کہنے لگا کہ ہمارے رنگ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔‘‘(19)
15؍فروری کو نئے سلے ہوئے کپڑے پہن کر دونوں جاسوس قلات شہر میں گھومنے کی غرض سے نکل آئے اور اپنے اصل مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے قلات شہر، قلعہ اور گردونواح سمیت پورے علاقے کا جائزہ لیا پوٹینگر کا جائزہ مکمل فوجی نوعیت کا تھا اور یہی ذمہ داری اسے سونپ کر برطانوی راج نے اسے اور اس کے ساتھی کو قلات اور باقی ماندہ بلوچستان کی جانب روانہ کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ :
’’ یہ شہر پورے بلوچستان کا دارالحکومت ہے اور اس لئے یہ قلات یا شہر کہلاتا ہے جو بلوچی میں اس کا مفہوم ہے ۔ یہ ایک سیراب وشاداب میدان یا وادی کی مغربی طرف ایک اونچی جگہ پر واقع ہے جو تقریباً آٹھ میل لمبا اور دو تین میل چوڑا ہے اور جس کا بیشتر حصہ باغات اور دیگر احاطوں پر مشتمل ہے شہر ایک مستطیل مربع صورت میں بنا ہوا ہے اور اس کی تین اطراف کے گرد ایک مٹی کی دیوار ہے جو اٹھارہ یا بیس فٹ اونچی ہے ۔ اور جس پر ڈھائی سو قدموں کے فاصلے پر برج بنے ہوئے ہیں۔ برجوں اور دیواروں میں تفنگچیوں کے لئے بے شمار سوراخ ہیں لیکن ان پر توپیں کہیں نصب نہیں اور نہ ہی شاید میرے اندازے کے مطابق یہ شکستہ تعمیرات ان کی متحمل ہوسکتی ہیں۔ شہر کی چوتھی طرف پہاڑی کے مغربی حصے سے محفوظ ہے جس پر یہ جزوی طور پر ایستادہ ہے اور جسے عموداً کاٹا گیا ہے۔ اس پہاڑی کی چوٹی پر خان قلات بیگلر بیگی بلوچستان، محمود خان کا محل بنا ہوا ہے جہاں سے شہر اور مضافات کا منظر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مجھے اندرون محل دیکھنے کا موقع نہ مل سکا لیکن باہر سے یہ عام مٹی کی عمارتوں کا ایک بے ہنگم ڈھیر معلوم ہوتا ہے۔ ان کی چھتیں مسطح اور ڈھلوان ہیں جن کی حفاظت کے لئے چھوٹی چھوٹی دیواریں ہیں جو قلعہ کی دیواروں کی طرح سوراخ دار ہیں ۔
پہاڑی کے اس حصے کے گرد ایک برجدار خاکی دیوار بنی ہوئی ہے جس پر خان کا محل واقع ہے۔ اس کی حالت دیگر قلعہ بندیوں کی نسبت بہتر ہے اور میرے خیال میں مجموعی طور پر یہ قلعہ تھوڑی سی مزید توجہ سے بلوچستان بھر میں دفاعی طور پر محفوظ ترین بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا باب داخلہ جنوب مغربی طرف ہے اور یہاں مستقلاً تفنگچیوں کا ایک حفاظتی دستہ ہوتا ہے۔ شہرکے تین دروازے ہیں جو خانی، قندھاری اور بیلائی کہلاتے ہیں۔ آخری دونوں قندھار اور بیلہ جانیوالی سڑکوں پر موسوم ہیں اور پہلا خان سے منسوب ہے۔ ان دروازوں پر بھی حفاظتی دستے متعین ہیں فصیل کے اندر ڈھائی ہزار سے زیادہ مکانات ہیں اور مضافات میں ان کے نصف سے زیادہ ہوں گے۔ وہ نیم سوختہ اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں جو چوبی ڈھانچوں پر لگی ہوئی ہیں اور ان پر گارے چونے کا پلستر ہوا ہے۔ گلیاں عموماً دیگر مقامی قصبوں کی نسبت زیادہ چوڑی ہیں اور ان کے دو رویہ پا پیادہ لوگوں کے لئے اونچی پگڈنڈیاں بنی ہوئی ہیں لیکن ان کے وسط میں کچرہ دان ہے جس میں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے اور بارش کا بدبودار پانی بھی اس میں رکا رہتا ہے لہٰذا یہ وبال جان بنی ہوئی ہے کیونکہ اس کی صفائی کے کوئی سخت انتظامات و احکامات نہیں ہیں۔ ایک اور مشکل (جو شہر کی صفائی اور آرام کو متاثر کرتی ہے) یہ ہے کہ مکانات کی بالائی منزلیں گلیوں کے اوپر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے نچلے حصے تاریک اور مرطوب رہتے ہیں یہ اصل میں ایران اور کابل کے بازاروں کی بے حد بھونڈی تقلید ہے۔ ‘‘(20)
پوٹینگر اپنا جائزہ جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ :
’’ قلات کا بازار وسیع ہے اور ہر قسم کے سامان سے معمور ہے ۔ گوشت سبزیاں اور دیگر ضروریات زندگی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ میدان کے مقابل پہاڑی کا ایک چشمہ شہر کو لذیذ پانی مہیا کرتا ہے، اور شہر بمعہ مضافات اور باغات کے بیچوں بیچ بل کھاتا ہوا گذرتا ہے۔ پانی کا دھارا اتنا تیز اور بھرپور ہے کہ چوتھائی میل طے کرنے سے پہلے پہلے اس سے بہت سی پن چکیاں چلتی ہیں۔ اس کا منبع چٹان کے ایک قدرتی غار میں واقع ہے۔ جس کے اندر میں دس بارہ گز تک گیا یہاں دو تین فٹ گہرا دھارا آئینہ کی طرح شفاف اور بہت تیز ہے یہ یہاں سے ہی چار پانچ شاخوں میں بٹ جاتا ہے جن کے بہائو کے راستے اتنے نشیبی اور تنگ ہیں کہ آگے نہ جاسکا۔ اس سے زیادہ مملو چشمہ میری دید و شنید میں نہیں آیا۔ ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ چشمے کا پانی چھوٹی نالیوں سے نکلنے کے بعد طلوع آفتاب کے بعد تک اچھا خاصہ نیم گرم ہوتا ہے اور پھر یکلخت ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور سارا دن ٹھنڈا ہی رہتا ہے ۔‘‘(21)
پوٹینگر کی درج بالا آرا اور قلات کا جائزاتی نقشہ مکمل طور پر فوجی نقطہ نظر کی عکاس ہے پورے بازار میں گھومتے ہوئے بھی اس کی نظریں قلات کے قلعہ کے دیواروں اور اندرون فصیل تعمیرات اور ان کی فوجی نقطہ نظر سے اہمیت پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ ہر چیز کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور برطانوی افواج کے ممکنہ حملے کے طور پر قلات کے دفاعی پوزیشن کو دیکھ رہا تھا وہ خود اپنے ارادوں اور منصوبوں کے بارے میں یوں رقم طراز ہے کہ:
’’ہم روز نہایت اشتیاق سے ان ممالک کے جغرافیہ اور ماہیت کے متعلق معلومات اندوزی کرتے رہے جن سے ہمارا آئندہ راستہ گزرنا تھا۔‘‘(22)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔