عورت
تحریر: لالا ماجد
دی بلوچستان پوسٹ
سماج میں عورت کو کس نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اور کس نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اس سے کوئی انسان لاعلم نہیں ہوگا۔ اکثر عورت کو سماجی اور معاشی معاملوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اور ہر چیز میں مردوں کو آگے لایا گیا ہے۔ صرف اس بات کی بنا پر کے عورت مردوں سے کمزور ہیں، اور عورت کبھی کسی مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ صدیوں سے عورت پر جو ظلم ہوئے وہ بیان بھی نہیں کیئے جا سکتے۔ لیکن وہ تو صدیوں کی بات ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی عورت کے ساتھ چودہویں صدی کے ظلم و جبر ہو رہے ہیں۔ جن میں ریپ کرنا، رکھیل بنانا، ان کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، بن پوچھے ان کی شادی کرانا، اور سماج سے دور رکھنا شامل ہے۔
ہمیں ہمارے بزرگوں سے یہ سیکھنے کو ملا ہے کہ عورت گھر کی زینت ہوتی ہے۔ لہٰذا عورت کا باہر نکلنا خاندان کی بدنامی ثابت ہوتی ہے۔
ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ عورت باہر محفوظ نہیں لیکن یہ نہیں کہتے کہ کس کی وجہ سے، سوال تو یہ بھی بنتا ہے، کیا عورت بدنام ہونے کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہیں؟ جس طرح ہم وقت کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا عورت کو یہ حق حاصل نہیں؟ کیا وہ نہیں چاہتے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں۔ ہم اپنی غلطی کے ذمہ دار بھی عورت کوٹہراتے ہیں۔ کیونکہ ہم چاہتے ہی نہیں کہ عورت ذات ہم سے مقابلہ کرسکے۔ اس لیے انہیں قیدی بنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم مذہب کا حوالہ دے کر ان کا حق مار دیتے ہیں۔ ہم عورت کو اس بات کی سزا دیتے ہیں جو اس نے کبھی کی ہی نہ ہو۔ اگر کسی لڑکی کا ریپ ہو جاتا ہے۔ تو وہاں بھی عورت ذات قصوروار، اگر کسی دفتر میں عورت کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرتا ہے تو ہم اسے گھر بیٹھنے کی صلاح دیتے ہیں، نہ کہ اس مسئلہ کو حل کرتے ہیں۔ ایسے بہت سارے واقعے ہیں جن کے ذمہ دار مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ذہن اس قدر negative ہوگئے ہیں۔ کہ ہم ہر حال میں ذمہ دار عورت کو ہی ٹہراتے ہیں۔
جتنا میں سمجھتا ہوں ہمیں اپنی سوچ درست کرنے کی ضرورت ہے۔عورت کو کمزور کمزور کہہ کر گھر بیٹھنے کی صلاح دراصل ان کو سماج سے دور رکھنا ہی ہے۔ آج اگر ہم تھوڑا بہت عورتوں کے حوالے سے بھول بھی لیتے ہیں، تو یہ ہم کوئی احسان نہیں کرتے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ لیکن پھر وہی بات آواز عورتوں کے لئے اٹھاؤ مگر اس آواز میں عورت کی کوئی آواز ہی نہ ہو۔ آپ اپنی آواز جتنی بھی بلند کریں مگر جب تک عورت کو اپنی برابر لا کر کھڑا نہیں کرو گے۔ آپ کی آواز نہیں سنی جائے گی۔ ہم کہیں بھی کام کرنے جاتے ہیں تو عورتوں کی بے شمار نوکریوں کا اعلان ہوتا ہے، ہم دوسروں کی بہنوں کو دعوت دیتے ہیں مگر اپنی بہنوں کو گھر تک رہنے کا حکم دے دیتے ہیں۔
حال ہی میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ دیکھنے کو ملا۔ جو بلوچستان میں رہنے والوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا۔ جہاں ایک گروہ نے وہاں پڑھنے والے لڑکیوں کو ہراساں کرنے کا ایک گیم کھیلا۔ جو ساتھ سے آٹھ سال تک چلتا رہا۔ جن میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں خفیہ کیمرے، ان کو فیل کر کے بلیک میل کرنا،اور اپنی ایک ایسی تنظیم بنانا، جو tours اور scholarships کا کہ کر ان کی ویڈیوز بناتے تھے۔ اور پھر ان کو بلیک میل کرتے تھے۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا۔ بلوچستان کے لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنا۔ اور وہ کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ اس واقعے میں سب سے حیران کن بات یہ بھی ہے۔ کہ اس گروہ میں چند عورت بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد بھی ہم نہیں سمجھے، کہ عورت بھی اپنی آواز سے اپنا تحفظ کرسکتی ہے۔ لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرانے کی یہ سازش تب کامیاب ہوئی۔ جب وہ کچھ افراد کا گروہ آزادی سے گھومنے پھرنے لگا۔ خیر اب دیکھا جائے گا کہ یہ طمانچہ کب تک ہمیں لگتا رہے گا۔
ہم ہرچیز میں خود کو دوسروں سے ترقی یافتہ سمجھنے لگے ہیں۔ مگر جب بات عورت کی آتی ہے تو ہم اسلام کو بنیاد بنا کر کچھ ایسا کہتے ہیں۔ جو دین اسلام کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کچھ ایسے بھیڑیئے گھس آئے ہیں۔ جن کا کام صرف جنسی بھوک ہوتا ہے۔ جس کے باعث لڑکیاں علم کو چھوڑ کر گھر بیٹھنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ اور ہمارے لگائے ہوئے اتنے پابندیاں ہوتے ہیں ان کے اوپر کے وہ کچھ بول بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح اگر سیاست میں بھی دیکھا جائے تو وہ بھی کچھ ایسے ہی بیان کیا جائے گا۔ مگر یہ بات ہے ہمیں جاننا اور سمجھنا ہوگا۔ کہ ہمیں عورت ذات کو نہیں ان عناصر کو ختم کرنا ہے جو اس طرح کی گھٹیا سوچ کے مالک ہیں۔ کیونکہ عورت کی نمائندگی کے بغیر نیا سماج جنم نہیں لے سکتا۔ عورت کے تعلیم کے بغیر یہ سماج ان پڑھ ہے۔
ہم ہر سال 8 مارچ میں ایک دن کے لئے فیمنسٹ بن جاتے ہیں۔ مگر اس دن کے بعد کیا ہم عورت کو سماج میں وہ برابری کا مقام دے سکے ہیں۔ جس کی وہ ہمیشہ سے منتظر ہیں۔ سماج میں عزت پانا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، ملک کو ترقی کی راہ میں گامزن کرنا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، گالی گلوچ سے پاک سیاست کرنا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، اور اداروں کو مضبوط کرنا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، خواہ وہ تعلیمی ادارے ہو، صحت کے ادارے ہوں یا دفتر ہوں۔ سب میں عورت کی نمائندگی ہونا بے حد ضروری ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہیں ہمیں ملک و قوم کو بہتر بنانا ہے یا اسی طرح در در کی ٹھوکریں کھا کر زندگی بسر کرنا ہے۔ اور اگر بہتر سماج کو جنم دینا ہے، تو اس کے لئے ضروری ہے کی اپنی سوچ کو positive کرکے عورت ذات کو ان کا حق دے۔ ہر میدان میں عورت کو موقع دیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔
ایک حالیہ واقعہ بیان کرتا ہوں۔ جس میں ایک چھوٹا سا کردار شاید میرا بھی ہے۔ ہوا کچھ ایسے جب میں گھر سے بازار کی طرف نکل رہا تھا۔ جیسے ہی میں گیٹ سے باہر آیا۔ تو میں نے کچھ لیڈیز جاتے دیکھے۔ جب میں اردگرد بھی دیکھنے لگا تو اور جوان بھی اس عمل میں شریک تھے۔ اور وہ کچھ زیادہ ہی شریک تھے۔ میرا نظر پڑا یا میں نے جان بوجھ کر دیکھا اس بات کو بھی اگر بیان کرنے لگا، تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ اپنے کو دوسروں بہتر بنا رہا ہے۔ مگر میں اپنے کو اس عمل میں شریک سمجھتا ہوں۔ اتنے میں، میں وہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر بازار کی طرف نکلا۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کیا یہاں بھی ہم عورت کو قصوروار ٹھہرائیں گے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو قصور کس کا ہے یہ بھی آپ سب کے سامنے ہے۔ مگر ہوتا کچھ ایسے ہے کہ یہی بہادر جوان اپنے گھروں میں اپنے ماں بہن کو یہی نصیحت کرتے پھرتے ہیں۔ کہ زیادہ باہر مت نکلا کریں ماحول بہت خراب ہو گیا ہے۔ اور ماحول کس نے خراب کیا ہوا ہے یہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ایسے بہت سے واقعات ہیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتا۔ مگر کوئی بھی ان سے لاعلم نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں۔ جب ہر اسٹیج میں خود کو بہتر سمجھتے ہو۔ تو خدارا عورت کو آپ نے جس اسٹیج پر رکھا ہے ان کو اپنے برابری میں کھڑا کریں۔ یہ آپ کے لئے شرمندگی کی بات نہیں ہوگی۔ بلکہ آپ اپنا حق ادا کر کے اپنی عزت میں مزید اضافہ کریں گے۔ کیوںکہ عورت کو عزت دینا ایک عزت دار مرد کی نشانی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔