سونے اور تانبے کے سرزمین سیندک کے وارث ہوکر بھی زندگی کے اہم سہولیات اور روزگار سے محروم ہیں، سیندک پروجیکٹ جہاں سے پاکستان چائنیز کمپنی کے ساتھ گذشتہ 20 سالوں سے سونا تانبہ اور دیگر قیمتی دھات نکال کر کربوں روپے کمارہی ہے مگر افسوس پروجیکٹ ایریا میں علاقہ کے حقیقی وارث آج بھی اٹھارویں صدی کی طرز پر زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ ان خیالات کا اظہار سیندک کلی حمل آب کے سربراہ ملک رمضان موسیٰ زئی نے اپنے بیان میں کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت بیروزگاری کا شکار ہیں دوسری جانب سیندک ایریا میں شامل تمام علاقوں میں تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی روڈ اور دیگر اہم سہولیات سے محروم ہیں۔
ملک رمضان کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ سی ایس آر فنڈز سے اربوں روپے بلوچستان کے دیگر علاقوں میں خرچ کرکے ترقی کے دعوے کررہی ہیں مگر سیندک کے علاقوں میں کوئی ایک کروڑ روپے کی ترقیاتی کام دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کے تمام علاقوں میں ترقی چاہتے ہیں مگر سیندک پروجیکٹ کے فنڈز پر ترجیح سیندک کے علاقوں کو دینا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آج سیندک کے کلی صمد، کلی سرور، کلی حرے نر اور دیگرعلاقوں میں پرائمری سکول تک نہیں، کلی حمل آب سکول اور کلی خواستی کے سرکاری سکولوں کے عمارات کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں جبکہ کلی نور احمد سکول عمارت نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کے حجرے میں چل رہی ہے۔
ملک رمضان کا کہنا ہے کہ پورے علاقے میں صحت کے حوالے سے کوئی مرکز صحت نہیں، پروجیکٹ ایریاز میں واقع آٹھ تا پندرہ کلومیٹر دیہاتوں کو جانے والی سڑکیں پختہ نہیں کی جارہی ہے جس سے لوگوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں، صاف پینے کے لیے پانی نہ ہونے کے باعث بیماریاں پھیل رہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیندک پروجیکٹ انتظامیہ علاقائی لوگوں کیساتھ جاری سوتیلی ماں جیسی سلوک بند کرکے پورے علاقے کے مقامی نوجوانوں کو ملازمتوں میں ترجیح دیں اور علاقہ میں سی ایس آر فنڈز سے ترجیحی بنیاد پر تعلیم، صحت، سڑکیں صاف پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات کریں بصورت دیگر ہم علاقائی نوجوانوں کے ساتھ مل کر اپنے جائز حقوق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے اور بلوچستان کے منتخب نمائندوں اور سیاسی پارٹیوں کے سامنے اپنے ساتھ جاری ناانصافیوں اورمظالم سامنے رکھیں گے۔