دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 4 |برطانوی جاسوسوں کی آمد سے قبل بلوچستان کے سیاسی حالات (حصہ دوئم)
1749 ء میں نصیر خان قلات میں برسراقتدار آیا تو اس پر جلد ہی یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ وہ بلوچستان کا آزاد اور خود مختار حاکم نہیں ہے بلکہ افغانستان کی نوزائیدہ مملکت قلات کو اپنا حصہ تصور کرتی ہے اور احمد شاہ ابدالی اپنے آپ کو نادر شاہ افشار کا وارث قرار دے کر قلات کو اپنی میراث سمجھتا ہے(5) پچھلے 18 سالوں کی حکومت کے دوران میر محبت خان اور میر اہلتاز خان نے تمام ملکی ادارے تباہ کر دیئے تھے۔ خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، مالیات، عدلیہ، مقننہ حتیٰ کہ کوئی ریاستی ستون ایسا نہیں تھا کہ جو شکستہ وریختہ نہ ہو۔ قومی آزادی سلب ہوچکی تھی۔ قبائل آپس میں بر سر پیکار تھے اور ان میں تنظیم نامی کوئی شے نہیں تھی۔ وہ قبائلی لشکر کہ جس کی مدد سے میر محبت خان کے والد میرعبداللہ خان قہار نے مغرب میں بندر عباس سے لے کر مشرق میں ڈیرہ جات ہڑند و داجل تک اور شمال میں قندھار سے لے کر جنوب میں ساحل مکران تک اپنے سطوت و جبروت کے پرچم گاڑھے تھے اب تتر بتر ہو چکا تھا اور میر محبت خان و میر اہلتاز خان کے ناروا رویوں کی وجہ سے قبائلی سردار حکومتی معاملات سے کنارہ کش ہوچکے تھے اور چند ایک سرداروں کے علاوہ اکثریتی سردار انہیں قبائلی لشکر دینے سے کتراتے تھے۔ ملکی نظام حکومت درہم برہم ہوچکا تھا میر محبت خان کی ناروا داری اور متشددانہ پالیسیوں کی وجہ سے تمام قبائلی سردار اس سے متنفر ہوکر میر نصیر خان کو خان بنانے کی کوششوں میں سرگرم ہوگئے۔ میر نصیر خان کو بھی ورثے میں جو حکومت ملی اور جس ملک کا وہ خان (حکمران) بنا اس میں نہ تو ادارے تھے اور نہ ہی ملکی جغرافیہ معلوم تھا۔ اوپر سے احمد شاہ ابدالی کے بلوچستان پر ملکیت کے دعوے نے حکومت قلات اور ان کی آزادانہ اقتدار کو مشکوک بنادیا ۔ 1758ء میں میر نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کے مابین کئی خونریز جھڑپوں کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے معاہدہ قلات یا معاہدہ عدم مداخلت 1758ء کہا جاتا ہے۔ (6) اس معاہدے کے بعد نہ صرف یہ کہ بلوچستان کی آزادانہ حیثیت کو افغانستان نے تسلیم کیا اور آئندہ بلوچستان کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا اقرار کیا بلکہ اس معاہدے نے بلوچستان کے حقیقی جغرافیہ کو بھی واضح کیا اور ساتھ ہی اس معاہدے کی وجہ سے میر نصیر خان کی اندرونی و بیرونی مہمات کے لئے بھی راستہ کھل گیا۔ انہوں نے اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی کو تکمیل دیتے ہوئے کئی ممالک میں اپنے سفیر روانہ کئے اور کئی ممالک کے سفیر قلات چلے آئے۔ بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت شروع ہوئی اور بلوچستان کی مختلف شاہراہیں تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے مصروف نظر آنے لگیں، قلات شہر میں کئی اقسام کے کارخانے لگ گئے اور یہاں کی آبادی نوے ہزار سے تجاوز کر گئی۔ زرعی نظام میں زبردست انقلاب آیا۔ نئے ڈیم تعمیر ہوئے جبکہ پہاڑی وادیوں میں جہاں پانی کی کمی تھی پرانی کاریزات کی صفائی کے ساتھ ساتھ نئی کاریزات کھدوا کر زراعت کو مزید ترقی دی گئی اور ملکی مالیہ میں اضافہ کیا گیا۔
سیاسی اداروں کو ترقی دی گئی۔ دربار قلات کو نئے سرے سے ایرانی طرز پر بنا کر اس میں سرداروں اور عوام کے لئے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ سراوان و جھالاوان کے سرداروں کی حیثیت بڑھا دی گئی اور انہیں خان نے اپنے دائیں اور بائیں پہلو میں جگہ دی جبکہ دیگر سرداروں اور مصاحبین کی بھی ان کے مرتبہ کے مطابق نشستیں مخصوص تھیں۔ تمام اداروں کو منظم کرکے مالیات، عدلیہ، انتظامیہ اور فوج کو مضبوط بنایا۔ مالیات کے شعبہ کا سربراہ وکیل کہلاتا تھا جبکہ عدلیہ کا سربراہ قاضی القضاۃ یا چیف جسٹس ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں پولیس یا انتظامیہ کا سربراہ داروغہ کہلاتا تھا۔ وزیر اعظم کو آخوند جبکہ وزیر دربار کو شاغاسی کہا جاتا تھا۔(7) ان تمام عہدیداروں کو ان کے محکموں کے تمام تر اختیارات کلی طورپر سونپ دیئے گئے اور یہ عہدیدار صرف خان کے سامنے جوابدہ تھے۔ ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرنے اور لوگوں کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ایک آئین مرتب کیا گیا۔(8) جس میں عوام و خواص کے حقوق برابر رکھے گئے تھے اور سب کے لئے آئین کی پاسداری لازمی قرار دی گئی تھی۔ انتظامی طورپر ملک کو مختلف نیابتوں(صوبوں) میں تقسیم کیا گیا اور ہر نیابت پر ایک نائب مقرر کیا گیا۔ نائب کا تقرر خان، مجلس مصاحبین (مجلس مشاورت) میں کرتا تھا کہ جس کے پانچ ارکان تھے جو ضروری جانچ پڑتال کے بعد نائبوں یا مرکزی عہدیداروں کے تقرر کا فیصلہ کرتے۔ بلوچ قبائل سے ایک مضبوط اور لڑاکا فوج تیار کی جسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا یعنی دستہ سراوان جسے سراوان کے چیف (رئیسانی) قبیلہ اور دستہ جھلاوان کو چیف آف جھلاوان (زرکزئی) قبیلہ کے زیر کمان رکھا۔ اس کے علاوہ ہر اول دستہ جو دستہ خاص اور دستہ خان بھی کہلاتا تھا کو خان نے براہ راست اپنی زیر کمان رکھا۔ بوقت ضرورت وہ مختصر مدت میں دو لاکھ جوان اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو ایک رجسٹر میں دو لاکھ جوانوں کے نام لکھ کراس پیغام کے ساتھ بھیجے تھے کہ دو لاکھ تلواریں قلات میں آپ کا انتظا ر کررہی ہیں(9) جب کہ مختلف بیرونی مہمات میں انہوں نے احمد شاہ ابدالی کی 10 ہزار سے لے کر پچیس ہزار فوج کے ساتھ مدد بھی کی اور افغان فتوحات میں ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا۔ فوج کے حصول کا ذریعہ قبائل ہوتے تھے خصوصاً سراوان و جھلاوان کے قبائل قلات کے لئے دو مضبوط بازوئوں کی حیثیت رکھتے تھے جہاں سے زیادہ تر فوج حاصل ہوتی تھی جب کہ دیگر علاقوں کے جوان بھی قلات کو اپنی فوجی خدمات پیش کرتے تھے۔ فوج کے تمام تر اخراجات اور تنخواہ جات قومی خزانہ پورا کرتا تھا جب کہ بیرونی مہمات میں احمد شاہ ابدالی کی جب مدد کی جاتی تو فوجی اخراجات، سازوسامان، اسلحہ جنگ، راشن وغیرہ کے علاوہ ایک لاکھ روپے سالانہ کے حساب سے افغان حکومت، خان بلوچ کو ادا کرتی تھی جو کہ عہدنامہ قلات یا معاہدہ عدم مداخلت 1758 میں طے پایا تھا(10) اسی طرح قائم کئے گئے صوبوں کی نوعیت بھی مختلف تھی۔ بیلہ، خاران اور مکران نیم آزاد ریاستیں تھیں۔
جہاں کا نصف مالیہ قلات کو ملتا تھا اور فوجی امداد کی صورت میں مکمل مالیہ معاف تھا جبکہ خان کا نائب ریاستی نواب کے ساتھ مل کر حکومتی معاملات چلاتا تھا جبکہ آئین و قانون اور احکامات مرکز قلات کے ہوتے تھے۔ ایرانی بلوچستان اور سیستان کے صوبوں پر فوجی امداد اور مالیہ حسب توفیق اور رضاکارانہ طور پر لاگو تھا یہ ان پر منحصر تھا کہ وہ مرکز کو کچھ اد اکرتے ہیں یا نہیں البتہ وہ قلات کی بالادستی اور آئین و قانون کی مکمل پاسداری کرتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان مالیہ دینے والے صوبے تھے جن سے سالانہ بالترتیب 6,70,000 اور 120,000 روپنے مالیہ وصول کیا جاتا تھا اور خان کا نائب وہاں بیٹھ کر ملکی معاملات چلاتا تھا، سراوان و جھلاوان فوجی قوت تھے اور ریاست کی بنیادوں کو انہوں نے ہمیشہ اپنے خون سے استحکامت دی تھی لہٰذا ان سے کوئی مالیہ نہیں لیا جاتا تھا بلکہ ان قبائل اور ان کے سرداروں کو بڑی مراعات حاصل تھیں اور انہیں خصوصاً سراوان کے قبائل کو کچھی کے زرخیز صوبے میں بڑی بڑی زرعی اراضیات ملی تھیں جو ان کی خدمات کا صلہ تھیں۔ کچھی سب سے زرخیز صوبہ تھا کہ جو دراصل قلات کی حکومت کے استحکام میں مرکزی کردار ادا کرتا تھا، کچھی خان کا سرمائی دارالحکومت بھی تھا۔ سردیوں میں خوانین قلات کچھی منتقل ہوتے تھے اور ڈھاڈر اور گنداواہ میں قیام کرتے تھے اور قلات کی تمام رونقیں کچھی منتقل ہوتی تھیں۔ مالیہ وصولی کے بھی کئی ذرائع تھے یعنی تجارت، سنگ، مالیہ، ماہی گیری، زراعت، قالین بافی، اسلحہ سازی، درآمدات و برآمدات، جزیہ، خراج، مال غنیمت وغیرہ۔ سندھ سے 40ہزار روپے سالانہ ٹیکس وصول کیا جاتاتھا۔(11)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔