ایران کا کہنا ہے کہ اس نے قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا انتقام لیتے ہوئے عراق میں امریکی قیادت میں قائم اتحادی فوجی اڈوں کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور ایسا اس نے اپنے دفاع اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی فوج نے تصدیق کی کہ تہران نے بدھ کو مقامی وقت رات تقریباً ڈیڑھ بجے کے قریب ایرانی سرزمین سے ایک درجن سے زیادہ بیلسٹک میزائل فائر کیے جنہوں نے عراق میں اتحادی فوج کے کم از کم دو فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔
تہران کے سرکاری ٹی وی پر جاری ایک بیان کے مطابق ایران کے پاسدارن انقلاب نے تصدیق کی ہے کہ یہ میزائل حملہ گذشتہ ہفتے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی انتقامی کارروائی کا حصہ ہے اور اس کارروائی کو آپریشن سلیمانی کا نام دیا گیا ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق بیان میں ایران نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مزید ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اپنی فوج کو خطے سے نکال لے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایران کی کارروائی اپنے دفاع اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہے۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع میں اقدامات کیے اور اس اڈے کو نشانہ بنایا جس سے ہمارے شہریوں اور سینیئر عہدیداروں کے خلاف بزدلانہ مسلح حملہ کیا گیا۔ ہم جنگ یا کشیدگی میں بڑھاوا نہیں چاہتے بلکہ کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کریں گے۔
ادھر پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ایرانی حملے میں اب تک ہلاکتوں کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہاف مین نے ایک بیان میں کہاہم ابتدائی جنگ میں اپنے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عراق میں اتحادی افواج کی جن تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ان میں عین الاسد اور اربیل کے فضائی اڈے تھے۔
انہوں نے کہا ہم صورت حال اور اپنے ردعمل کا جائزہ لے رہے ہیں اور خطے میں امریکی اہلکاروں، اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے تحفظ اور دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سٹیفنی گریشم نے بتایا کہ دسمبر 2018 میں الاسد ہوائی اڈے کا دورہ کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حملے کے بارے میں بریف کیا گیا ہے اور وہ صورت حال کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔
تاہم ایران کی انتقامی کارروائی کے بعد اپنے پہلے ردعمل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب تک پریشانی کی بات نہیں ہے کیوں کہ امریکہ کے پاس دنیا کی طاقت ور ترین فوج ہے۔
ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا سب ٹھیک ہے۔ ایران کی جانب سے عراق میں ہمارے دو اڈوں پر میزائل داغے گئے ہیں۔ ہم اس وقت ہلاکتوں اور دیگر نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اب تک سب ٹھیک ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی سب سے طاقتور اور جدید ہتھیاروں سے مسلح فوج ہے۔ میں کل صبح باضابطہ بیان جاری کروں گا۔