دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ
قسط 2 | بلوچستان جغرافیائی کیفیت (آخری حصہ)
بلوچستان کے وسیع وعریض خطے میں جہاں موسموں اور زمین کی طبعی ساخت میں فرق ہے اسی طرح پانی کے ذخائر بھی مختلف ہیں مگر بحیثیت مجموعی پانی کا کوئی باقاعدہ ذریعہ مثلاً دریا، نہر وغیرہ کہ جس سے وسیع پیمانے پر زراعت کی جاسکے نہیں ہے البتہ کچھی کا میدانی علاقہ دریائے بولان، ناڑی وغیرہ کے پانی سے سیراب ہوتا ہے۔ کافی زمین پٹ فیڈر کینال، کیرتھر کینال اور ربیع کینال سے پانی حاصل کرکے زرخیزی پھیلاتی ہیں مگر اس کے باوجود بلوچستان میں کوئی باقاعدہ دریا جو سارا سال بہتا ہو، نہیں ہے لہٰذا جن علاقوں میں پانی کی قلت ہے وہاں زمین دوز نالیوں یعنی کاریزات کے ذریعے آبپاشی کی جاتی ہے یا پھر باران رحمت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ مشہور دریائوں میں دریا بولان، دریا مولہ، دریا ناڑی، دریا کیچ، دریا نہنگ، شادی کھور، دریا رخشان، دریا بڈو دریا حب، دریا پب، کوئٹہ ندی، دریا ژوب، دریا پورالی، دریا ہنگول وغیرہ زیادہ قابل ذکر ہیں۔
ان دریائوں میں سارا سال پانی دستیاب ہوتا ہے البتہ بارانی دنوں میں ان دریائوں میں شدید طغیانی آتی ہے جس سے بعض اوقات نشیبی علاقوں میں شدید تباہی مچ جاتی ہے۔ ہامون ماشکیل، زنگی ناوڑ، سرندہ جھیل، ہنہ جھیل، سپین کاریز پانی کی جھیلیں ہیں جن میں کچھ قدرتی اور کچھ مصنوعی ہیں۔ ان جھیلوں پر سردیوں اور گرمیوں میں ہر قسم کے آبی پرندے ملتے ہیں جن کا بیدردی کے ساتھ شکار کیا جاتا ہے۔ پھلوں کے لحاظ سے بلوچستان دنیا کا خوش قسمت خطہ ہے یہاں موسموں کی تنوع اور زمینی ساخت میں تبدیلی کی وجہ سے ہر موسم اور ہر خطے کے پھل ملتے ہیں۔ یہاں سرد، گرم، معتدل، میدانی، ریگستانی، ساحلی اور پہاڑی ہر قسم کے خطوں کے پھل، سبزیاں، دالیں و اناج اگتے ہیں۔ بلوچستان کی کل آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق لگ بھگ 69 لاکھ ہے مگر درحقیقت یہ اعداد سرکار ی خانہ پُری تھی وگرنہ بلوچستان کے دور دراز اور ناقابل گزر علاقوں کے لوگ اس میں شامل ہی نہیں ہیں اندازاً بلوچستان کی آبادی ڈیڑھ سے دو کروڑ کے مابین ہے اور موجودہ دور میں یہ تعداد زیادہ بڑھ گئی ہوگی بلوچستان کی نوے فیصد آبادی بلوچ قبائل پر مشتمل ہے جو مشرق، مغرب، جنوب اور وسط میں آباد ہیں جبکہ شمال میں زیادہ تر پشتون قبائل ہیں جن کی اکثریت پاکستان بننے کے بعد افغانستان کے نامساعد حالات سے تنگ آکر مہاجرت کرکے بلوچستان میں آکر آباد ہوئی۔ پاکستان میں شامل بلوچستان 32 اضلاع اور 6 کمشنریوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اکثریت بلوچی زبان بولنے والوں کی ہے اور کئی لہجوں مثلاً براہوئی، جٹکی، سرائیکی اور دہواری میں بات کرتے ہیں جبکہ پشتو صوبے کے شمال میں بولی جاتی ہے۔
بلوچستان گو کہ پاکستان کا دورافتادہ علاقہ ہے اور یہاں باقی ملک کی نسبت کوئی ترقی نہیں ہوئی مگر سیاسی و جغرافیائی حوالے سے اس خطے کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت ماضی قدیم سے مسلم چلی آرہی ہے اور تاریخ کے تمام ادوار میں اس خطے نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان میں پائے جانے اور دریافت کئے جانے والے آثار قدیمہ بلوچستان کے تہذیبی سفر کو 11 ہزار سال ماضی میں لے جاتے ہیں۔(4) جبکہ انسان اس وقت زمین پر آباد ہونے کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ مہرگڑھ، شاہی تمپ، کوئٹہ کے آثار، خاران اور خضدار کے آثار نال، مشکے اور بیلہ کی قدیم تباہ شدہ بستیاں اس حقیقت کو اور زیادہ مدلل بناتی ہیں کہ انسان نے ابتدائی بستیوں کا آغاز ہی بلوچستان کے خطے سے کیا تھا اور یہیں سے انسانی معاشرتی نظام اور تہذیب کی بنیاد ڈالی تھی۔ بلوچستان کی قدیم بستیاں جدید حجری دور سے تعلق رکھتی ہیں(5) جبکہ اس وقت کسی بڑی سلطنت کا وجود تک نہ تھا۔ مہر گڑھ کی بستی دنیا کی قدیم ترین بستی شمار کی جاتی ہے کہ جس کی قدامت لگ بھک 11000سال ہے۔(6)
بلوچستان میں آرین قبائل کا دور 2000ق م سے 1500 قبل مسیح میں ہوا(7) مگر شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ان قبائل نے یہاں سکونت اختیار کرنے کی بجائے درہ بولان کے راستے سندھ و ہند کی جانب اپنا سفر جاری رکھا(8) البتہ یہاں انہوں نے آگ و خون کا کھیل خوب کھیلا اور جو بھی آبادی ان کے سامنے آئی وہاں انہوں نے خوب تباہی و بربادی مچائی، آرین یلغار کے صدیوں بعد مشرق و مغرب میں عظیم سلطنتوں کا ظہور ہوا۔ تانبے کی دریافت و ترقی نے بلوچستان کی دم توڑتی ہوئی قدیم تہذیب کو بالاخر مغلوب کیا اور بلوچستان بڑی طاقتوں کے مابین ایک فوجی و تجارتی گزر گاہ بن کر رہ گیا۔ مؤرخین کے مطابق بلوچستان (مکران) پر پہلا حملہ آشوری ملکہ سیمی رامس نے کیا جب اسے ہندوستان میں شکست ہوئی تو وہ مشرق وسطیٰ جانے کے لئے مکران پر حملہ آور ہوئی(9) مگر بڑی مشکل سے اپنی پوری فوج گنوا کر وہ صرف 20 سپاہیوں کے ساتھ عراق پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔(10) بعد ازاں جب ایران میں ہخامنشیوں کو اقتدار ملا تو انہوں نے بھی اس خطے کو اپنے زیر اثر رکھا۔ یونانی دور میں بلوچستان سکندر مقدونی کی ترکتازیوں کا شکار ہوا اور 326ق م میں اس نے اپنی فوج کے ساتھ لسبیلہ اور مکران پر یلغار کی۔(11) حتیٰ کہ بیرونی یلغاروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ گزرے ساڑھے تین ہزار سال کی تاریخ میں بلوچستان مسلسل بیرونی حملوں کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے۔ وسطی دور یعنی 15ویں صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے کافی طاقت پکڑلی تھی اور انہیں آہستہ آہستہ خطے پر کنٹرول حاصل ہوتا جارہا تھا ۔ حتیٰ کہ سترھویں صدی کے اختتام اور اٹھارویں صدی کے آغاز سے وسط تک بلوچستان ایک مرکز کے تحت متحد ہو چکا تھا اور اٹھارویں صدی میں اس کی سرحدیں ایران میں بیر جند اور طبس سے شمال میں میناب کے ساحلوں تک اور شرقاً غرباً کرمان سے کوہِ سلیمان تک پھیل چکی تھیں انیسویں صدی میں برطانیہ کے ہندوستان میں مضبوط معاشی منڈی کے حصول کی جنگ اب اختتام پذیر ہونے والی تھی اور برطانیہ نے ہندوستان کے تقریباً تمام معاشی اداروں پر تسلط حاصل کرلیا تھا مگر اس کی ہوس ملک گیری کی پیاس ختم نہیں ہوئی اور اس نے برطانیہ کی نوآبادیات کو روس سے بچانے کے بہانے ہندوستان سے افغانستان کی جانب جنگ کا دائرہ بڑھایا۔ راستے میں آنے والی ریاستوں سندھ، بہاولپور، بلوچستان وغیرہ پر جابرانہ طریقے سے جنگ مسلط کرکے انہیں کچل دیا اور ان خطوں پر قبضہ کرکے انہیں افغانستان کی جنگ میں جنگی اڈے، فوجی گزرگاہ اور نوآبادیات کے طور پر استعمال کیا۔ گریٹ گیم کے دوران بلوچستان کی جغرافیائی و علاقائی اہمیت زیادہ شدت اختیار کرچکی تھی اور ہر بڑی طاقت کی خواہش تھی کہ انہیں بلوچستان کے گرم ساحلوں اور تنگ دروں پر رسائی حاصل ہو، بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سازشوں اور بلوچ سرزمین اور وسائل کا بے دردی کے ساتھ غیر اخلاقی استعمال نے بلوچ قوم پرستانہ جدوجہد کو جنم دیا اور نوجوانوں کو متحد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ آج جدید دور میں لاتعداد معدنیات کی دریافت، ایندھن کے بے شمار وسائل کی موجودگی اہم جغرافیائی محل وقوع، امریکہ کے افغانستان پر حملے اور بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت، مشرق وسطیٰ اور ایران کی ہمسائیگی، طویل ساحل سمندر حتیٰ کہ کئی وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے بلوچستان زیادہ اہمیت کا حامل بن چکا ہے اور جتنی شدت کے ساتھ بلوچستان کے خلاف عالمی سازشیں ہورہی ہیں ان کی وجہ سے یہ خطہ مستقبل میں متوقع کسی بڑی عالمی جنگ کا میدان بن جائیگا۔
برطانوی دور میں بھی بلوچستان بیرونی سازشوں کے تسلط کا شکار ہوا جس کی وجہ سے یہاں پر غیر منظم انداز میں ردعمل سامنے آیا آئندہ اوراق میں بلوچستان میں برطانوی جاسوسوں کی آمد سے قبل بلوچستان کے سیاسی حالات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
حوالہ جات :
1۔ عنایت اللہ بلوچ۔دی پرابلم آف گریٹر بلوچستان،اے کیس سٹڈی آف بلوچ نیشنل ازم ، سٹٹ گرٹ ، جی ایم بی ایچ ، جرمنی، 19,1987
2۔ ملک صالح محمدخان لہڑی، تاریخ بلوچستان ون یونٹ تک، ہفتہ واربا غ وبہار، کوئٹہ،1952،3,4
3۔ عنایت اللہ بلوچ، 21
4۔ فاروق بلوچ، مہر گڑھ ، ایشیاء کی تہذیب میں اس کی اہمیت ، بلوچستان سٹڈی سینٹر، جامعہ بلوچستان ،کوئٹہ،5,6,2011
5۔ محمد سعید دہوار ، تاریخ بلوچستان ، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ ، 750,1990
6۔ فاروق بلوچ،6
7۔ ای مارسڈن ، تاریخ ہند، بک ہوم ، لاہور ، 20, 23,2006
8۔ محمد سعید دہوار۔147,48
9۔ ونسنٹ اے سمتھ ، قدیم تاریخ ہند ، ترجمہ : مولانا محمد جمیل الرحمٰن، تخلیقات، لاہور، 125,2001
10۔ محمد سعید دہوار ، 170
11۔ ونسنٹ ۔ اے سمتھ ، 125,142
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔