کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3797 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او پجار کے وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (بی ایچ آر او) کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ اور دیگر کارکنان موجود تھے۔
ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کی مسخ لاشوں کے مسئلے سے پاکستان مقتدرہ قوتیں جوابدہی کے حوالے سے اپنی جان نہیں چھڑاسکیں ہے اگرچہ پاکستانی مقتدرہ کے تمام حصے اندرونی اور بیرونی سطح پر بلوچستان میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے لغو بیان بازی سمیت میڈیا اور دیگر ذرائع کو مضحکہ خیز طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں لیکن بلوچ پرامن جدوجہد میں وسعت اور شدت، لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مثالی اور تاریخ ساز پرامن جدوجہد پاکستانی مقتدرہ کی ان تمام چالوں اور کوششوں پر پانی پھیر چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج کے تمام پرامن ذرائع کے استعمال سے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کو متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ بلوچ فرزندوں کی ریاستی اداروں کے ذریعے اٹھاکر طویل عرصے تک لاپتہ کرنے اور انہیں خفیہ ریاستی عقوبت خانوں میں انتہائی سفاکیت اور ناقابل بیان تشدد سے شہید کرنا اور لاشیں مسخ کرکے پھینکنا تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین، اصولوں اور انسانی حقوق کے کنونشنز کی رو سے نسل کشی اور جنگی جرائم کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی ریاستی خلاف ورزیوں میں آنے والی شدت جنگی جرائم کے شکار خطوں جیسی ہے۔ اٹھاؤ، مارو اور پھینکو کی پالیسی ظاہر کررہی ہے کہ بالادست قوتیں پوری بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔