بابا! آپکی یاد آتی ہے
تحریر: عائشہ اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا دن ضرور آتا ہے، جو وہ پوری زندگی نہیں بھول سکتا۔ میری زندگی میں وہ دن پچیس دسمبر کا دن تھا، جسے میں پوری زندگی نہیں بھول سکتی۔ ایک سال پہلے آج ہی کے دن استاد ہم سے بچھڑ گئے، وہ لمحات کتنے حسین تھے جب استاد ساتھ تھے، میری پریشانی کو استاد کی ایک مسکراہٹ دور کردیتی، ان کی باتیں، ان کی ہنسی، ان کا مجھے ناز سے پکارنا، آج اتنی شددت سے یاد آتا ہے۔ یہ یادیں بڑی تکلیف دیتی ہیں، کیا لکھوں سمجھ میں نہیں آتا، بس کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ استاد بس آ جائے اور میں ان کے سینے سے لگ کر ان سے پوچھوں کہ کیوں اتنی جلدی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کے ساتھ یہ زندگی کتنی آسان تھی کیونکہ آپ نے ہر مشکل کو آسان کر دیا تھا، حوصلہ و ہمت کیا ہے، آپ نے ہی سکھایا، میرے لیئے ابھی بھی یہ قبول کرنا ناممکن ہے، کہ آپ ہمارے بیچ نہیں۔ ہمیشہ ایسے لگتا ہے کہ آپ یہیں کہیں ہیں۔
بابا جان! ماں جب بھی آپ کو یاد کرتی ہے تو ایک حوصلہ بن جاتا ہے، وہ جس لہجے سے آپ کو اور ریحان جان کو یاد کرتی ہے، مجھ جیسے کمزور انسان کو حوصلہ ملتا ہے کہ ماں استاد اور ریحان کا نام لیتے وقت ایک بار بھی باتوں میں کمزوری نہیں لاتی ہے، تب مجھے بچپن سے دی گئی آپ کی تربیت یاد آتا ہے۔ جب آپ کہا کرتے “ہم وطن کے ہیں، ہمیں وطن کا ہونا ہے، ہمیں اپنے خواہشات کو وطن کے خاطر ختم کرنا ہوگا۔ کل شاید میں نہیں رہوں اور آپ لوگ کمزور ہوجاؤ کہ بابا نے ہماری ذاتی زندگی کے لیئے کچھ نہیں کیا۔” مگر؛ بابا آپ عظیم ہو، آپ نے وہ سب کچھ کردیا، شاید زندگی میں کسی باپ نے اپنے بچون کے لیے نہیں کیا ہوگا۔ ہمیں زندگی سے کوئی گلہ نہیں، ہمیں خوشی ہے کہ ہم ایک ایسے باپ کے سائے میں بڑے ہوئے جو سب کے لیے برابری کا احساس رکھتا تھا۔ جو مخلصی، ایمانداری کی بنیاد پر سب کا تھا۔ جس میں مظلوم کی آہ کو سننے کی سبقت ہو، جو اس طرح عظیم ہو کہ وہ ریحان جیسے بیٹے کو وطن پر قربان کرے، وہ کمزور ماں کو ایسا چٹان بنادے کہ وہ تاریخ رقم کرتے ہوئے ریحان کو وطن کے جھنڈے میں لپیٹ کر قربان کرنے روانہ کردے۔ یہ سب کچھ ایک مخلص اور ایماندار والد اپنے قوم، وطن اور اپنے خاندان کے لیے کرسکتا ہے۔
بابا! مجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہو، آپ ہر وقت ہمارے ساتھ ہونگے، بس ایک ارمان ہے کہ اب وہ آواز سننے کو نہیں ملتا جو عاشی کہہ کر پکارتا اور کتا بیٹا وتاخ میں مہمان ہیں، چائے بناو، عاشی میرے دوائی لا کر دو، عاشی بیٹی پانی پلا دو، اب وہ مہرباں آواز کبھی نہیں سننے کو ملے گی۔ یہ کان ترس گئے ہیں عاشی سننے کے لیئے۔
بابا! آپ کے کچھ وائس ہیں، جو اکثر سنا کرتی ہوں اور اماں کے گود میں ابھی بھی سر رکھ کر کہتی ہوں، استاد کی کچھ باتیں سناؤ، پھر اماں وہ ساری باتیں کرتا، جب میں اور ریحان جان چھوٹے تھے اور آپ ہمارے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور ہنسا کرتے، آج میں ان باتوں پر ہنستی ہوں، مگر آنسوؤں کے ساتھ۔ بابا! مجھے معاف کرنا، جو وعدہ کیا تھا کہ کبھی نہیں رونا ہے پر آنسو نہیں رکتے، شاید وہ میرے بس میں نہیں یا میں اماں نہیں جو آپ کو اور ریحان کو یاد کرکے بھی نہیں روؤں، آج بھی ایسی کوئی غلطی ہو تو ایسے لگتا ہے، جیسے آپ پکار رہے ہو، “نہیں عاشی یہ غلط، میں نے تمہیں کیا سمجھایا تھا؟” تو رک جاتی ہوں اور خوشی سے آنسو آ جاتے ہیں کہ اپ ابھی بھی میرے ساتھ ہیں اور مجھے سمجھا رہے ہیں۔
رحیم سب سے مخلص، ایماندر، محنتی اور سب کا خیال رکھنے والا تھا، سب کا احساس کرنا والا ہی رحیم تھا۔ بہادری کی مثال فرید جان تھا اور مہربان ماما رستم ہمیشہ ہنستا مسکراتا۔ شہید امان احساس رکھنے والا، خود سے پہلے دوسروں کا سوچنے والا، محنت، مخلصی، بہادری کا نام امان تھا۔ تاجو ماما پورا دن کام میں مصروف رہتا تھا۔ کام کرنا، محنت کرنا بس اسکی عادت بن چکی تھی۔ کیا لکھوں ان کے بارے میں، یہ تو موت کو مات دے کر ہمیشہ کے لیئے امر ہوگئے، تاریخ کو خود اپنی طرف متوجہ کرگئے، چھ دوستوں کا ایک ساتھ بیٹھنا، مجلس، انکی قہقہے کی آواز گونج رہی تھی، ایک دوسرے کو تنگ کرنا اور ان کا ایک ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہونا، یہ بھی ایک مثال ہے ان کی مہر محبت کی، مخلصی و ایماندری کی، ایک ساتھ کام کرنے، ایک ساتھ جینے اور ایک ساتھ رخصت ہونے کی۔
ریحان اس دن خوش ہوگا کیونکہ اس کی ملاقت اس دن استاد اور اپنے دوستوں سے ہورہی تھی، کتنا حسین و خوبصورت لمحہ ہوگا، جب ریحانو استاد سے ملا ہوگا، استاد کے سینے سے لگا ہوگا، کیا محفل سجی ہوگی، کیا خوبصورت لمحہ ہوگا، کیا منظر ہوگا۔۔۔۔
میرے لیے تو وہ دن بیان کرنا بہت مشکل ہے، وہ لمحہ جب استاد کو رخصت ہوتے دیکھنا، وہ دن، وہ لمحہ بیان کرنا کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔ ہمیشہ ہم یہی کہتے ہیں کہ استاد کا فکر و فلسفہ ہمارے ساتھ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ یا ہم صرف باتیں ہی کرتے ہیں؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے، اس بر غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ کارواں ہمارا ہے، ہمارے بھی بہت سے فرض بنتے ہیں، انہیں پورا کرنا ہمارا حق ہے، ہر موڑ پر ہمارے شہید ہماری رہنمائی کرتے ہیں، ہمیں سکھا تے ہیں، ہمیں سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تاریخ رقم کرنے والے کبھی بھی نہیں مرتے، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، ہمارے دلوں میں، ہماری سوچ میں، بلوچستان کے ہر شہر، ہر گھر میں وہ زندہ ہیں، بولان کے پہاڑوں میں انکے قدموں کے نشان ہیں، شور کے راستوں پر بھی انکے نشان ہیں، وہ ہر بلوچ کے دل میں زندہ ہیں اور تا قیامت رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔