ایران کو لگام دینے کے لئے مشرق وسطیٰ میں مزید فوجی بھیجیں گے- امریکہ

111
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر  ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے پانچ  سے سات ہزار اضافی فوجی مشرق وسطی بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ بات ایک امریکی ذمے دار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو شناخت ظاہر نہ کرنے کے درخواست پر بتائی۔

امریکی ذمے دار نے یہ نہیں بتایا کہ اضافی فوجیوں کو کب اور کہاں تعینات کیا جائے گا ، تاہم انہوں نے حوالہ دیا کہ یہ اقدام ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والی ایک جماعت کے حملوں کے جواب میں ہو گا جس نے حالیہ مہینوں کے دوران امریکی مفادات کو نشانہ بنایا۔

ادھر کانگرس کے ایک اجلاس میں نائب وزیر دفاع جون روڈ کا کہنا تھا کہ امریکا نے تشویش کے ساتھ ایران کے رویے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ ہم خطرے کے سطح کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور ہم اپنی موجودگی کو تیزی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

تاہم جون روڈ نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ کی تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ مشرق وسطی کے خطے میں 14 ہزار اضافی امریکی فوجیوں کے تعینات کیے جانے کا امکان ہے۔ اسی طرح پینٹاگان کی ترجمان الیسا فرح نے بھی ٹویٹر پر اس تعداد کو مسترد کر دیا تھا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرسی صدارت پر پہنچنے کے بعد سے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں باقاعدگی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بالخصوص ایران کے جوہری معاہدے سے واشنگٹن کی یک طرفہ علاحدگی اور ایران پر ایک بار پھر سے شدید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد ۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران مشرق وسطی میں کئی حادثات اور واقعات پیش آئے جن کو واشنگٹن نے ایران کے ساتھ منسوب کیا۔

امریکا، مغربی ممالک اور سعودی عرب نے تہران پر الزام عائد کیا تھا کہ ستمبر میں سعودی عرب میں تیل کی دو تنصیبات کو فضائی ضربوں کا نشانہ بنانے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔

یکم اکتوبر کو امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ایران کے شرپسند موقف پر تنقید کرتے ہوئے اسے مشرق وسطی کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور عالمی معیشت میں تطل لانے کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔

اسی طرح امریکا کو عراق میں فوجی اڈوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے سلسلے میں بھی تشویش لاحق ہے۔ عراقی عوام معاشی اخراجات میں بے پناہ اضافے اور ملکی معاملات میں غیر ملکی بالخصوص ایرانی مداخلت پر سراپا احتجاج ہیں۔

ایک اور امریکی ذمے دار کا کہنا ہے کہ میزائل داغے جانے کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس کا تعلق داعش تنظیم سے نہیں ہے۔ تمام کارروائیاں صحیح سمت اور درست فاصلے کے ساتھ عمل میں آ رہی ہیں۔ ذمے دار نے مزید کہا کہ “ہم خوش قمست ہیں کہ ان کارروائیوں میں کوئی ہلاک نہیں ہوا”۔

منگل کے روز عراق میں عین الاسد کے فضائی اڈے پر پانچ میزائل آ کر گرے تھے۔ یہ کارروائی امریکی نائب صدر مائیک پینس کے عراق کے دورے کے چار روز بعد کی گئی۔