کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لیے احتجاج

285

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3788 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او پجار کے ایک وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم ماضی اور حال پر نظر دوڑائیں کہ بلوچستان کے مسئلے کو میڈیا نے کتنی کوریج دی اور کتنے نجی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا نے مرکزی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو ہمیں کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے، ستر سالوں سے بلوچستان میں ظلم و جبر اور بربریت کا سماں برپا کیا گیا ہے، جہاں پانی کے نہروں کی جگہ خون کی نہریں جاری ہے، احترام مسلم کی دور کی بات بوڑھوں اور خواتین کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے جیسا کہ کوئی مالک اپنے غلام کے ساتھ بھی نہیں کرتا، ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ بلوچ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مختلف اذیت خانوں میں بند اپنے جرم کے لفظی معنی ڈھونڈتے ہوئے خود پر تشدد اور بربریت سہنے پر مجبور ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے انتظار میں بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ہیں تو کوئی وفد کی صورت میں آکر انہیں جھوٹی تسلی دے کر بھوک ہڑتال ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ چند روز میں آپ کے عزیز و اقارب کو منظر عام پر لایا جائے گا مگر اقدام کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ آج بلوچستان میں کئی ایسی پارلیمانی اور غیر پارلیمانی پارٹیاں ہیں جو الزم تراشیوں میں مشغول ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے گریزاں ہیں اور اپنے شہیدوں کی قربانیوں اور ہزاروں بلوچوں کی امیدوں کو ناامیدی کی شکل دے رہے ہیں۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ آج دنیا میں جتنی بھی قوتیں خوشحال اور خود مختار ہیں یہ سب ان کے اتفاق اور یکجہتی کا پھل ہے اگر ہمیں لاپتہ افراد کی بازیابی، چادر اور چاردیواری کی حفاظت کرنا ہے تو یکجا ہوکر اٹھنا ہوگا۔