ڈاکٹر منان سے ایک مختصر ملاقات
تحریر: شہسوار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک دن مجھے سنگت طارق کا میسج آیا جس میں لکھا تھا کہاں ہو یار میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، کئی دنوں سے ملاقات نہیں ہوا ہے۔ میں نے کہاں گھر میں ہوں اس نے کہا اپنے وتاخ میں رہو میں پہنچتا ہوں جب طارق ہمارے وتاخ پہنچا حال احوال ہوا، تو بولے شہسوار تو ہمیں بھول گیا بس حال احوال بھی نہیں کرتے ہو میں ان سے مخاطب ہوا نہیں یار بس گھر میں رہتا ہوں کتابیں پڑھتا ہوں یہ سن کر طارق کہنے لگا واہ یار یہ تو بہت اچھی بات ہے اور میں ان سے کہنے لگا حال احوال دو کیا کر رہے ہو اس نے کہا یار مستونگ کے قربیی پہاڑوں میں قمبر اور پروفیسر آئے ہوئے ہیں اور ان سے رابطے میں رہنا میرا ٹاسک ہے کچھ بھی انہیں ضرورت ہو تو میں انہیں پہنچاتا ہوں۔ میں ان سے کہنے لگا یہ قمبر اور پروفیسر کون ہیں۔ یہ سن کر طارق ہنسنے لگا اور کہنے لگا پروفیسر ڈاکٹر منان کا نام ہے اور قبمر اشرف کا نام ہے جو کلی دتو میں رہتا ہے میں ان سے کہنے لگا جی جی میں سمجھ گیا۔
پروفیسر نے بہت سے نئے دوست بنائے ہیں، یہاں وہ نظریاتی دوستوں کے گھروں پر بھی آتے ہیں، ہم انہی باتوں میں تھے طارق مجھے کہنے لگا میں آپ کی ان سے ملاقات کرواونگا۔ میں اس دن کے انتظار میں تھا کہ طارق کب میری ملاقات کرائیں گی وہ دن بھی آیا جب طارق نے مجھ سے کہا آج آپ کو ملانے کا وقت آیا ہے ہم گھر سے روانہ ہوئے جاتے جاتے ہم آماچ پہنچ گئے اسی کے ساتھ اشرف کی طرف سے طارق کو یہ میسج آیا آپ لوگ کچھ دیر آماچ ڈیم کے باشک پر انتظار کرو کیونکہ یہاں کچھ نئے سنگت ملنے آئے ہیں، ایسا نہ ہو وہ آپ لوگوں کو دیکھ لیں، تفریبا 30 منٹ کے بعد ہم نے دور سے ایک موٹرسائیکل گزرتے ہوئے دیکھا اور اسی کیساتھ اشرف کا میسج دوبارہ آیا کے آپ لوگ میرے بنائے ہوئے جگہ پر پہنچ جاؤ ہم سفر پر نکل پڑے اور ہم ان کے بتائے ہوئے جگہ پر پہنچ گئے۔
وہاں پر سب سے پہلے ہماری ملاقات اشرف سے ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور نوجوان تھا اس کا منہ چادر سے ڈکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پہچانا نہیں جا رہا تھا اس نے مجھ سے کہا شہسوار امر اس میں حیران رہ گیا یہ کون ہے اور ہم سب آگے روانہ ہوئے اگے ڈاکٹر منان اور ایک جوان بیٹھے ہوئے تھے، ان سے ملاقات ہوئی جسے میں پہچان گیا ارے یہ تو ساجد بلوچ ہے، جس سے میرا ملاقات کوئٹہ میں ہوا تھا۔ خیر تمام سنگتوں سے گپ شب ہوئی اشرف بار بار اٹھ کر دوربین کے ساتھ علاقے کا جائزہ لے رہا تھا اور میرا زہن اس سنگت کی طرف تھا جو ہم سے دور چلا گیا کسی سے رابطہ کرنے کیونکہ جہاں ہم تھے وہاں موبائل کام نہیں کر رہے تھے کچھ دیر بعد سنگت دوبارہ آیا اور اس بار اس کا منہ ڈھکا ہوا نہیں تھا قریب آتے ہی اس کا چہرہ صاف نظر آیا ارے یہ تو خالد ہے خالد بھی میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔
ڈاکٹر منان کی محفل بڑی زبردست تھی، اٹھنے کا دل بھی نہیں کر رہا تھا مگر ہمیں واپس گھر جانا بھی تھا ہم ان سے رخصت ہوئے اور ساجد مجھ سے کہنے لگا دوبارہ بہت جلد آنا میں نے کہا ضرور اور ہم روانہ ہوئے اور سفر کرتے کرتے گھر پہنچ گئے اور طارق اس کے بعد روز مجھ سے رابطے میں رہا کبھی جانا ہوتا ہمارا تو کبھی شہر سے کوئی ضروری سامان خریدنے جاتے تو طارق مجھے بھی ساتھ لے جاتا اسی طرح گرمیوں کے دن سردیوں میں بدل گئے سنگت دندان اور آماچ کے یخ بستہ سردی میں بھی پہاڑی پر ہوتے ایسی سردی میں مجھ جیسے تو گھر سے بازار تک نہیں جا سکتے اور یہ وطن کے رکھوالے سردی برداشت کر رہے تھے۔ ہمارے آنے والے کل کیلئے۔
ایک دن میں گھر میں تھا سردی بھی کافی زیادہ تھی بارش بھی کافی زیادہ تھا، طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اشرف پہاڑی سے گھر کی طرف گھر آیا تھا اس کے ساتھ ڈاکٹر منان اور ساجد بھی تھے ڈاکٹر منان نے اشرف کو ڈرپ بھی لگایا ہوا تھا اور انہوں نے رات 3 بجے کو طارق کو بھی مسیج کی تھی کے اگر ہمارے گھر کی طرف آسکتے ہو تو آجاؤ، مگر طارق نہ جا سکا اور رات کچھ گھنٹے بعد راستی فوسسز کو پتہ چل گیا تھا اور سنگتوں کو فورسسز نے گھیر لیا تھا اور سنگتوں اور فوسسز کے بیچ جھڑپ ہوئی جس میں سارے سنگتوں نے شھید امیر الملک کی یاد تازہ کی اور اپنی آخری گولی اپنے نام کی جس میں ڈاکٹر منان , اشرف , ساجد , بابو نوروز نے شہادت نوش کی جس کے بعد یہ خبر سنتے ہی ہر آنکھ اشک بار ہوئی آپ لوگوں کی کمی کبھی پوری نہیں ہو گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔