نصاب میں ترامیم اور متوقع شدید ردعمل
تحریر: گہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے حوالے سے یہ سوچ روز اول سے موجود تھا کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کی unityکو کمزور کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جائیں۔ کھبی سردار اور قبائلی بنیادوں پر اور کبھی علاقائی و لسانی اور زبان کے نام پر۔ مگر اب ریاست کی نئی حکمت عملی اور اپنی منفی سوچ کو آگے لے جانے کے لیے تیزی کیساتھ کامیاب ہوتا جارہا ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر بلوچستان کی الحاق تک اور یہاں بسنے والے باقی اقوام کی شناخت و زبان کو روزز اول سے تسلیم نہ کرنا، جب کہ پاکستان کی بنیاد کثیرالقومی ریاست ہے، مگر انکا ہمیشہ پالیسی یہی رہا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان اور پاکستانی ایک قوم ہے۔ بات نا یہاں سے شروع ہوتی ہے اور نا ہی یہاں سے ختم ہوتی ہے۔
حال ہی میں بلوچ قوم کو بلوچ و براہوئی کے نام سے تقسیم کرانے میں حکومت کے حمایت یافتہ اور ریاستی سرٹیفائیڈ نام نہاد ایجوکسشنسٹ کی سربراہی میں اپنے بلوچ قومی تقسیم کی پالیسی کو تقویت دینا اور اس خیال میں رہنا کہ وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو کر سیلیبس کے ذریعے بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنا کہ یہاں بلوچ، پشتون اور براہوئی رہتے ہیں اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بلوچستان میں پشتون قوم آباد ہے، مگر اپنی چالاکی سے اسلام آباد کے اشاروں پہ چلنے اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیئے بلوچستان میں براہوئی قوم بھی ٓباد ہے لکھا گیا، بلوچی اور براہوئی دو الگ زبان ہوسکتے ہیں مگر الگ قوم نہیں ہوسکتے۔
ابھی سوشل میڈیا پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے. معتبر صحافی اپنے سورس سے بتا رہا تھا کہ اس کورس سیلیبس کو ترتیب دینے میں بلوچستان کے نامور ماہر تعلیم اور ایک شاعر بھی شامل ہے ؛ تو بہت افسوس اور دُکھ کا مقام ہے کہ اس سے قبل ہم صدیوں سے یہی الزام اسلام آباد میں بیھٹے دشمن کی کارستانی قرار دیتے تھے مگر آج اپنی سرزمین سے وابستہ اسلام آباد کے ایجنڈے کو آگے لے جارہے ہیں تو اب ہم کس سے گلہ کریں۔
آج سے قبل بھی بلوچ قوم کو آپس میں دست و گریباں کرنے میں طرح طرح سازشیں کی مگر سد آفرین بلوچ قوم کے بزرگ سیاسی رہنماوں، طلبا رہنماوں، دانشوروں، و زندگی کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچ رہنماوں نے انہیں ناکام بناتے ہوئے ایک بلوچ قوم کے نام سے unity انکی سب سے بڑی پہچان تھی ۔ جنہوں نے اپنی قومی بقا اور تشخص کی خاطر ہر دور میں ایک ہوتے تھے۔ بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں البتہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ اس میں شامل اپنے عین موقعے اور دنوں میں انکی را ز پاش ہوگئی۔
میں سمجھتا ہوں اس خبر کے بعد نا صرف یہ سلیبس کو ٹھیک کرائیں گے بلکہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں طلبا تنظیموں کی جانب سے شدید اور انوکھا قسم کا ختم نہ ہونے والی تحریک کا آغاز ہوگا۔ امید ہے اس مسئلے پہ شدید قسم کا ردعمل سامنے آئے گا تاکہ اسلام آباد کو یہ پیغام جائے کہ آپ بے شک انتہائی شاطر ہوں ہمارے اپنے چند نام نیاد ماہر تعلیم کو اپنے مراعات سے بے تحاشہ نوازتے رہے، مگر اس بات کا اب آپکو ادراک ہونا چایئے کہ جو پالیسی ہمارے قومی تقسیم کی سبب بن رہے ہیں، اُس پہ خاموشی تسلیم کرنا یہ بیوروکریسی اور حکومت کی بول ہے۔ بلوچستان میں قائم حکومتی سیلیکٹڈ سیٹ اپ کا شاید آپ ہر قسم کے جائز اور ناجائز کام لے سکتے ہیں مگر انکے ذریعے عوامی رد عمل کو روک نہیں سکتے۔
۔
چاہے صوبائی حکومت ہو یہ اسلام آباد میں بیٹھے افسر شاہی اسطرح کے مسائل پہ ہاتھ ڈالنے سے قبل بلوچستان کے جذبات کا خیال رکھنا اور اسکا تجزیہ کرنا انکے لیے ضروری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔