متحرمہ ندا کاظمی کے نام – سمیرا بلوچ

863

متحرمہ ندا کاظمی کے نام

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“خواتین و حضرات! یہ ڈگری اور سند جو ہوتی ہے۔ وہ ساری کی ساری شخصیت کی ترجمان نہیں ہوتی ہے۔ شخصیت الگ چیز ہے اور ڈگری اس سے الگ چیز ہے۔”

اشفاق احمد

اشفاق صاحب کی اس بات میں کتنا وزن ہے اور اس کی گہرائی کا احساس گذشتہ دنوں کے ایک واقعے کے بعد ہوا۔ کہنے والوں نے سچ ہی کہا ہے کہ انسان کی گفتگو اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ آپکے الفاظ ہی آپکا عکس ہوتے ہیں۔

بلوچستان کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں ہاسٹل میں کمروں کی کمی کی وجہ سے طلباء و طلبات اور ہاوس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اسکی وجہ ہاسٹل میں رہائش پذیر وہ طلباء ہیں، جہنوں نے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھی ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں، ان طالبات سے ہاسٹل کو خالی کرانے کی ذمہ داری کوئٹہ کے خاتون اسٹنٹ کمشنر ندا کاظمی کو دی گئی۔ تو محترمہ ندا کاظمی صاحبہ نے کچھ ایسا انداز اور رویہ اپنایا کہ ان کے الفاظ نے انکی شخصیت کے عکس کو پوری طرح سے واضح کر دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ندا صاحبہ کی طلبہ کے لیے ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ان کی عہدے اور شخصیت پر بہت سے سوال کھڑے کر دیئے۔ لیکن متحرمہ پر مائی باپ کا آشرباد ہونے کی وجہ سے نہ ان سے اسکی اس رویہ پر بازپرس کی گئی اور نہ ہی انھیں طلباء سے ناروا سلوک اپنانے پرجواب طلبی کی زحمت دی گئی ہے۔

مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کو ان کی بنیادی حقوق سے جسطرح محروم رکھا گیا ہے اور رکھا جا رہا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں بیٹھے جو وزراء ہیں ، ان سے لیکر بلوچستان میں بیوروکریٹ ہوں یا یونیورسٹیوں میں تعینات وائس چانسلرز سبھی اسٹیبلشمنٹ کے کٹھ پتلیاں ہیں۔

بولان میڈیکل کمپلیکس میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالبات آکر اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔طالبات کو کن مشکلات اور دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے، اس سے غافل انتظامیہ طالبات پر طاقت کا استعمال کرکے طالبات کی مجبوروں کو نظر انداز کرکے ان کو رات کو ہاسٹل سے نکالنا اور انھیں سڑکوں پر رہنے کے لیئے مجبور کرنا ہم بلوچوں کی روایات اور تہذیب کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

بولان میڈیکل کمپلیکس کے انتظامیہ ، وزیر تعلیم اور محترمہ ندا صاحبہ کو اتنا علم تو ضرور رہا ہوگا۔ کہ وہ طالبات کن مجبوروں کے تحت ہاسٹل میں رہ رہی تھیں۔ ان کو سہولت دینے کے بجائے ان کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا گیا جو کے نا قابل فراموش اور قابل مذمت ہے۔

محترمہ ندا کاظمی صاحبہ اخلاق وہ چیز ہے۔ جسے اندھا دیکھ سکتا ہے اور بہرا سن سکتا ہے ۔ اگر آپ ایک عورت ہونے کے ناطے ان طلبات کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آتی اور اپنے اختیارات کے تحت ان کی مشکلات کو اعلیٰ حکام تک پہنچاتی، ان مسائل کو حل کرتے تاکہ آنے والے وقت میں طالبات کو ایسی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، ایسی اذیتوں سے نجات دلانے کی کوشش کرتی، تو آپکا نام ان کرداروں میں ہمیشہ کےلئے زندہ رہتی، جو بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرکے اپنی سرزمین کا حق ادا کرتے ہیں ۔ کیونکہ نہ عہدہ ، نہ یہ کرسی اور نہ اس کرسی پر بیٹھے ہوۓ آپکے اختیارات اور طاقت سدا رہنے والی چیزیں ہیں، رہنی والی چیز صرف ایک ہی ہے۔اور وہ ہے انسان کا ” نام “۔ جو اچھے کام کرتے ہیں، دنیا انھیں اچھے نام سے یاد کرتی ہیں۔

دنیا مہاتما گاندھی ،بھگت سنگھ ، نیلسن منڈیلا، ابراہم لنکن، مادر ٹریسا، لیڈی ڈیانا، عبدالستار ایدھی کو یاد کرتی ہے، دنیا ہٹلر، فرعون اور یزید کو بھی نہیں بھولی ۔سب اپنے کرداروں کی وجہ سے اب بھی دنیا میں زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔