طلباء تنظیمیں اور موجودہ حالات
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نظریاتی بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نا صرف شعور علم پھیلاتے ہیں بلکہ ان کا مقصد ہی قومی مسئلے و منزل ہوتے ہیں، اور شخصیت پرستی کا جینا مرنا شخصیت کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے، حیوان کی خصوصیت جیسا ہے انہیں صرف اپنی ذاتی مفادات اور ذات تک جینا اور مرنا پڑتا ہے۔
نظریات سے لیس ورکر و لیڈر کا ہمیشہ خوبصورتی یہی رہتا ہے، وہ لالچ، تنگ نظری جیسے مسئلوں سے دور رہتا ہے جہاں اس کی قومی بقاء، قومی مسائل کاتعلق ہو وہ ہمیشہ جان نچھاور کرنے کے لیے بھی تیار رہتا ہے۔
نظریات اور شخصیت پرست کو اگر تولہ جائے تو نظریات ہی جیت جاتے ہیں، طلباء تنظیموں میں ہمیشہ نظریات سے لیس ورکروں نے جو لالچ اور خودغرضی اپنی ذاتی انا سے پاک زندانوں میں قوت گذاری ہے، قربان دی ہے۔ نظریات کو ہمیشہ ختم کرنے کے لیئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔
آج کے حالات اور وقت نے طلباء تحریک کو پھر سے بیدار کیا ہے، وہی طلباء تحریک جسے ضیاء الحق و مشرف نے للکارا تھا، آج بلوچستان میں طویل مدت کے بعد رونما ہوا ہے۔
یہ آج ہی کی بات ہے ہر دربار میں طلباء تنظیموں پر کڑی تنقید ہوتی رہتی تھی، طلباء تنظمیں کمزور ہیں، وہ وقت تھا جب ہم نے جیلوں میں زندگی گذاری، وہ ہمارے دور تھے، طلباء تنظیموں کو این جی اوز کے الفاظات سے نوازا گیا، تو جناب آپ کا دور آپ کے حالات و وقت الگ تھے آج الگ ہیں۔
آپ کے زمانے میں طلباء تنظیموں کے رہنما جبراً غائب نہیں ہوتے تھے، آج ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، وقت اور حالات نے طلباء کو کمزور کیا، طلباء کے لگائے گئے سرکل ہوٹلوں کے بینچ میں بدل گئے، طلباء رہنماؤں کو ان کی کیپمس آنے تک میں پابندی لگائی گئی۔
ہاں ان خالی جگہوں کو دیکھ کر موقع پرست اور استحصالی قوتوں نے طلباء تنظیموں میں جگہ بنائی، طلباء تنظیموں کو زیر کیا گیا یا زیر ماتحت رہے، رہنما بننے کے لیے قلیل الاعتبار لوگوں کا چناؤ کیا گیا، وقتی طور پر طلباء کو ذاتی مفادات تک نوازا گیا مفادات کی جنگ نے نظریات کو وقتی طور پر شکست دی۔
بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل، بلوچستان سمیت ملک بھر کے طلباء تنظیموں کے لیے ایک چیلنج نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے، طلباء کو ایک کرنے کے لیئے، پھر سے تحریکیں چلانی چاہیئے، بلوچستان میں طلباء تنظیموں نے اپنی حد تک یونیورسٹی اسیکنڈل میں شامل ضیاء الحق کے پیدواروں کے خلاف تحریک چلانے کی جسارت کی رکھی ہے، بلوچستان یونیورسٹی کو مادر علمی کہو یا بقول مشہور دانشور قلم کار انور ساجدی صاحب کے نازی کیمپ، کوئی فرق نہیں کیونکہ اب مادر علمی درسگاہ ایک کیمپ سمیت لڑکیوں کو سمگلنگ کا اڈہ بھی سمجھا جاتا ہے،
2009 کے بعد بلوچستان میں طلباء تنظمیں پھر سے ان قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہیں، شومئی بخت اس وقت بھی طلباء تنظیمیں ایک پیچ پر نا آئے اور آج بھی وہی صورتحال ہے، ہر ایک کو کریڈٹ لینا ہے، خیر اپنا کریڈٹ لیں اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے یہ قومی مسئلہ ہے، یہ آپ کے بقاء، آپکے ننگ و ناموس، آپکے روایات کا مسئلہ ہے، چاہے آپ بلوچستان میں رہنے والے بلوچ ہوں یا پٹھان، یہ آپ کا مسئلہ ہے۔
تنگ نظری، تعصب، کریڈٹ لینے کی جنگ، ہم گذشتہ کئی وقتوں سے لڑتے آرہے ہیں، سوائے افسوس کے باقی کچھ نا رہا
وقت ہے ایک ہو جاؤ، طلباء یونین کے لیئے تحریک چلاؤ، اس اہم مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم نا کردیں، اب ایک نا ہوئے، اب بھی ذاتی مفاد، لالچ، خود غرضی، عدم برداشت کی سیاست سے الگ نا نکلے تو یاد رکھو آپ ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے ختم ہونے والے ہو
یونیورسٹی کے اس بدنام مسئلے میں آپ اگر اب بھی اپنی تنظیم کی جنگ میں لگے ہو تو یقین کریں آپ تنگ نظر ہو، آیئے ایک ہو جاؤ، ہم آپ سب کا مسئلہ ہے ایک تحریک چلاؤ ایک آواز بنو ایک قوت بنو ایک رہو تو کامیابی آپکی ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔