ہندوستان سے بات چیت کا اب کوئی فائدہ نہیں- پاکستان

292

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اب انڈیا سے بات چیت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ اس کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اب ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے بہت بات کر لی ہے۔ بدقسمتی سے اب جب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں امن اور مذاکرات کے لیے جو بھی کوششیں کر رہا تھا وہ اسے برائے تسکین لیتے رہے۔ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی گئی ہے جب انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید خراب ہو چکے ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر بھی کشیدگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور پاکستان نے انڈیا پر بلااشتعال فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئے اپنے تین شہریوں اور چار فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ یہ بھی کہا ہے کہ جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک افسر سمیت 11 انڈین فوجی ہلاک کیے گئے ہیں۔ انڈیا کی جانب سے تاحال ایک فوجی کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

پاکستان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے جانے کا بھی اصولی فیصلہ کیا ہے۔

انڈیا نے پانچ اگست کو کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئینی شق 370 کا خاتمہ کر دیا تھا جس کے بعد سے وادی میں سکیورٹی لاک ڈاؤن ہے۔ اس واقعے کے بعد کشمیر کا دنیا بھر سے مواصلاتی رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا تاہم دو ہفتے بعد جہاں یہ روابط جزوی طور پر بحال ہوئے ہیں وہیں وادی میں اب بھی نظامِ زندگی معطل ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق انڈین حکام نے رواں ماہ کے دوران چار ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو حراست میں بھی لیا ہے تاہم انڈین حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں حالات معمول پر ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 80 لاکھ افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ہم فکرمند ہیں کہ وہاں (کشمیر) میں نسلی بنیاد پر صفایا اور نسل کشی ہونے کو ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر تک رسائی دی جائے تاکہ اس خدشے کا سدباب کیا جا سکے۔

پاکستانی وزیراعظم نے جمعرات کو ٹوئٹر پر بھی اپنے پیغامات میں کہا کہ وہ دنیا کی توجہ لاکھوں کشمیریوں کی مشکلات کی جانب دلانا چاہتے ہیں جنھیں تشدد اور بدسلوکی کا سامنا ہے اور جنھیں ان کے بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج مذہبی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے پہلے عالمی دن کے موقع پر ہم دنیا کی توجہ انڈیا کے جبرواستبداد میں گھرے لاکھوں کشمیریوں کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں جنھیں توہین و تشدد کا سامنا ہے اور جن کے تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے ہر قسم کی آزادیوں سے محروم کیا جا چکا ہے۔

عمران خان نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ انڈیا پاکستان کے خلاف عسکری جارحیت کے لیے کشمیر میں جعلی کارروائی کا ڈرامہ رچا سکتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں پاکستان جواب دینے پر مجبور ہو گا۔

پھر آپ جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ممالک کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا دیکھ رہے ہوں گے اور پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے فکر ہے کہ یہ بات بڑھ سکتی ہے اور ہمیں جس چیز کا سامنا ہے دنیا کو بھی اس بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے موقف پر قائم رہا ہے تاہم مستقبل میں یہ فیصلہ حالات کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔

پاکستانی وزیراعظم کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بطور ثالث کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم سے فون پر بات بھی کی تھی۔

امریکی صدر نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ایک طویل عرصے سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات خراب ہیں اور یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک بہت پیچیدہ جگہ ہے، وہاں ہندو ہیں اور مسلمان ہیں لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ ایک ساتھ اچھے طریقے سے رہ رہے ہیں۔

امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم اس وقت ایک گھمبیر مسئلے سے دوچار ہیں۔

دونوں وزرائے اعظم میرے دوست ہیں،اور دونوں بہت زبردست انسان ہیں، دونوں اپنے اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں لیکن وہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں، کشمیر ایک گھمبیر معاملہ ہے جو کہ بہت لمبے عرصے سے جاری ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم معاملے کے حل کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں اور میں اپنی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ میرے ان دونوں سے اچھے تعلقات ہیں لیکن ان دونوں کی آپس میں دوستی نہیں ہے، یہ پیچیدہ معاملہ ہے اور اس کی پیچھے مذہب ہے، مذہب پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے۔