گیارہ اگست بلوچستان کی آزادی کا دن
تحریر: نور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب برطانیہ نے ہندوستان کا رُخ کیا تو ساتھ ساتھ اس نے بلوچستان کو بھی اپنے نوآبادکاری کا نشانہ بنایا. جہاں کہیں بھی کوئی نوآبادکار آیا ہے اس نے صرف اس جگہ پہ نوآبادکاری نہیں کی بلکہ اس کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُس کے آس پاس والے سارے ریاستوں کو نوآبادکاری کا نشانہ بنائے. تاکہ اُس کے زرمبادلہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور اس کے بینک دوسروں کی محنت کی کمائی سے بھر جائیں. اگر ہم 19 ویں صدی کی بات کریں تو دنیا کے براعظم ایشیا میں یورپ اور امریکہ کی زیادہ سے زیادہ نوآبادکاری رہا ہے. چین، انڈونیشیا، فلپائن، کوریا، ہندوستان، اور بلوچستان 19 ویں صدی میں نوآبادکاروں کے زد میں آ گئے تھے. جہاں کہیں بھی نوآباکار آباد ہوتا ہے، وہاں کے لوگوں کی مختلف نفسیات ہوتے ہیں. کچھ لوگ نوآباکار کو خوش آمدید کہتے ہیں. کچھ لوگ اُس کے خلاف جاتے ہیں. تو کچھ لوگ کبھی نوآباکار کےساتھ ساتھ ہوتے ہیں تو کبھی اپنے عوام کے ساتھ ہوتے ہیں جو نوآباکار کے خلاف اٹھے ہوئے ہوتے ہیں.
سنہ 1839 ء کی بات ہے جب بلوچستان میں برطانوی راج ایک نئے نوآباکار کی شکل میں بلوچستان پر وارد ہوا. اس سے پہلے بھی بلوچستان پر بہت سے نوآباکار آئے تھے لیکن انہیں بلوچ قوم کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ اس مزاحمت کے سامنے ان کو گُھٹنے ٹیکنے پڑتے تھے. 1410ء سے لیکر 1839 تک بلوچستان ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست ہوا کرتا تھا. اس طرح بلوچستان میں جب پہلے پرتگیزی نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو میر حمّل کلمتی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا. اور جب برطانیہ نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو میر محراب خان کی طرف سے ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن بدقسمتی سے میر محراب خان اسی مزاحمت میں شہید ہو گئے تھے. تو اس طرح سے بلوچستان میں برطانوی حکومت کو کچھ لوگوں نے خوش آمدید کہا تو کچھ لوگ اس کے خلاف مزاحمت میں شریک ہو گئے.
نوآباکار جہاں کہیں بھی قبضہ گیر ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے درمیان تعلقات کو ختم کرنے کے لیے ایک اصول کے تحت “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کو اپناتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو تقسیم کر دیتا ہے تاکہ یکجہتی کا فلسفہ ختم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ہم اُدھر اپنے قدم جما سکیں. تو اسی طرح برطانیہ نے بھی بلوچستان میں مزاحمت کی تحریک کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے بلوچستان کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا. سنہ 1897ء کو بلوچستان کے کچھ علاقے افغانستان کو لیز پر دے دیئے گئے اور اس وقت کے خان آف قلات سے یہ کہا گیا کہ برطانیہ کے جانے کے بعد آپ کے لیز والے علاقے آپ کو واپس کر دیئے جائیں گے. لیکن بد قسمتی سے بلوچستان کے وہ علاقے آج بھی افغانستان کے زیر انتظام آتے ہیں. اس طرح 1927ء کو پھر سے بلوچستان کے کچھ علاقے ایران کو لیز پر دیئے گئے پھر سے خان آف قلات کو یہی کہا گیا کہ ہمارے جانے کے بعد آپ کے علاقے ہم آپ کے حوالے کر کے جائیں گے. لیکن آج ہم دیکھیں تو وہ علاقے ایران کے زیر انتظام ہیں.
20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں بلوچستان کی تحریک کو ایک نئی روح پھونکنے والے یوسف عزیز مگسی تھے، جنہوں نے پھر سے بلوچ قوم کو اپنی تاریخ سے آشنا کر کے ان کو جگانے کی کوشش کی. یوسف عزیز مگسی نے عبدالعزیز کُرد اور نواب اکبر خان بگٹی کے بھائی نواب عبدالرحمان خان بُگٹی کے ساتھ مل کر 1931ء میں ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی جس کو “بلوچ و بلوچستان انجمن اتحاد” کا نام دیا گیا. اس کا مقصد بلوچ قوم کو ترقی یافتہ قوموں کی ایک ترقی یافتہ قوم بنانا اور بلوچستان کی آزادی تھی. بدقسمتی سے قدرت کے جو آفات آتے ہیں، وہ بھی جا کر مظلوم کا گّلا پکڑ لیتی ہیں. سنہ 1935ء کو کوئٹہ کے زلزلے میں یوسف عزیز مگسی بلوچ قوم کے درد اور تکلیفوں کو لیئے ہوئے اس جہانءِ فانی سے رخصت ہو گئے. لیکن پھر بھی مزاحمت جاری رہی.
دنیا کی عظیم جنگ دوم میں نقصان زیادہ ہونے پر برطانیہ نے ہندوستان اور بلوچستان سے جانے پر آمادہ ہوا. جنگ کے دو سال بعد اگست1947 ء کو برطانیہ نے بلوچستان کو اپنے خود مختاری واپس دے دی. 3 اگست 1947 کو یہ خبر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر ہوئی اور اس چیز پر محمد علی جناح بھی آمادہ ہوئے. اس وقت کے خان آف قلات میر احمد یار خان نے 11 اگست 1947 ء کو آزادی کا اعلان کر دیا گیا اور اس کے ساتھ بلوچستان کا جھنڈا بھی لہرایا گیا. اس دن کے مناسبت سے خان آف قلات نے تقریر بھی کی انہوں کہا کہ میرے تین خواہش تھے جن میں سے ایک آج پورا ہوا ہے.
1-بلوچستان کی آزادی جو کہ آج پورا ہوا ہے.
2-بلوچستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو گی لیکن اقلیتوں کو ان کی مذہب کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہو گا.
3- بلوچ قوم کو دوسرے ترقی یافتہ قوموں کی طرح ایک ترقی یافتہ قوم بنانا.
خان آف قلات کی سب سے بڑی کمزوری بلوچستان کے کچھ علاقے پاکستان کے زد میں آ گئے تھے وہ علاقے تھے. اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے پھر سے 27 مارچ 1948ء قبضہ کیا. یوں پھر سے بلوچستان ایک قبضہ آور ملک کے ہاتھوں لگ گیا. اور یوں پھر سے بلوچ قوم کو ایک غلام قوم بن گیا. تب سے لے کر اب تک بلوچ پاکستان کی ظلم وجبر کا سامنا کرتے آ رہے ہیں اور اپنی مزاحمت جاری کیئے ہوئے ہیں. کبھی خان عبدالکریم خان کی شکل میں تو کبھی نواب نوروز کی شکل میں. کبھی شیرو مری میں تو کبھی نواب خیربخش مری کی شکل میں. کبھی نواب اکبر بگٹی ک شکل میں تو کبھی بالاچ مری کی شکل میں. کبھی غلام محمد، لالا منیر اور شیر محمد کی شکل میں تو کبھی خلیل، براہمداغ اور حیربیار کی شکل میں. کبھی ڈاکٹر اللہ نذر کی شکل میں تو کبھی جنرل اسلم اور بشیر زیب کی شکل میں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔