پاکستان کا بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھیجنے اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ

157

کشمیر میں بگڑتی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے اور بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 

بدھ کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کردیے جائیں گے اور واہگہ بارڈر سمیت تمام تجارتی، ثقافتی، نقل وحمل محدود کر دی جائے گی۔

5 اگست کو بھارت نے اپنے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کر کے بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا۔ گذشتہ دو روز سے اس صورتحال پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں مشترکہ اجلاس جاری  ہے جس میں تمام اراکین اسمبلی نے کشمیر کے معاملے پر اپنی آرا کا اظہار کیا۔

معاملے کی سنجیدہ نوعیت کے تحت بدھ کو وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جو ڈھائی گھنٹے جاری رہا۔ اجلاس میں وزیرخارجہ، وزیردفاع، وزیرداخلہ، وزیرامور کشمیر، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، آرمی چیف، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس ائی سمیت اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔

ایک اعلامیے کے مطابق: ’اجلاس میں پاکستان نے تمام دوست ممالک سے فوری رابطوں کا فیصلہ کیا اور کہا کہ چین، روس، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت تمام ممالک کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا جائے گا۔‘

اس میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان کشمیریوں پر ظلم وستم، ریاستی جبر پر سلامتی کونسل میں بھی جائے گا۔‘

ومی سلامتی کمیٹی نے طے کیا کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کی صورت میں پاکستان منہ توڑ جواب دے گا۔ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے تمام افواج پاکستان کو تیار رہنے کی ہدایت بھی جاری کر دی۔

بھارتی کمشنر کی واپسی 

بدھ کی شام پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ پاکستان نے بھارت کے ہائی کمشنر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جبکہ بھارت میں پاکستانی نامزد ہائی کمشنرمعین الحق جنہوں نے اس ماہ عہدہ سنبھالنا تھا، اب وہ بھارت نہیں جائیں گے۔

اس سے قبل قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہا کہ بھارت سے سفارتی تعلقات سمیت دو طرفہ تجارت معطل کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلووؤں کا جائزہ لے کر انہیں محدود کریں گے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ طویل مشاورت کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے پانچ اہم فیصلے کیے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

قومی سلامی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے کے مطابق ان پانچ فیصلوں میں بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنا، دوطرفہ تجارت معطل کرنا، دوطرفہ معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لینا، بھارت کے زیرانتظام کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانا اور 14 اگست کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منانے اور 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ شامل ہیں۔

سفارتی زبان میں ڈاؤن گریڈنگ کیا ہے؟

بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ڈاؤن گریڈ کرنے کے فیصلے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ کے ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ شاہ محمود قریشی نے کہا: ’پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈاؤن گریڈنگ پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ ماضی میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ ماضی میں بھی ڈاؤن گریڈنگ کے نتیجے میں ہائی کمشنر کو واپس بھجوایا جا چکا ہے۔‘

ڈاؤن گریڈنگ کی تشریح کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے حکام نے بتایا کہ سفارتی زبان میں اس کا مطلب ہے کہ سفارت کاری کا ایک درجہ نیچے کر دیا جائے۔ یعنی سفارتی معاملات ہائی کمشنر نہیں بلکہ ان سے نچلے عہدے والے افسر دیکھتے ہیں۔

سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری طور پر ایسا تیسری مرتبہ اور مجموعی طور پر چھٹی مرتبہ یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1965 اور 1971 کی جنگ اور کشیدگی کے وقت دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمیشن بند کر دیے تھے۔

1999 میں کارگل کی لڑائی کے وقت بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات ڈاؤن گریڈ کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر کو واپس بھجوایا تو پاکستان نے بھی جوابی قدم اٹھایا۔

2001 میں بھی بھارتی پارلیمنٹ میں حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی ڈاؤن گریڈنگ ہوئی۔ جبکہ حال ہی میں پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت نے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلایا اور دو ماہ بعد واپس پاکستان بھیجا۔ جوابی طور پر پاکستان نے بھی اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیا تھا تاہم اس کو ڈاؤن گریڈنگ کا نام نہیں دیا گیا تھا۔

دو طرفہ تعلقات میں کیا کچھ متاثر ہوگا؟

اعلی ٰسفارتی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  موجودہ صورتحال کے پیش نظر جو سفارتی تعلقات محدود کیے جانے کا فیصلہ کیا ہے اس سے کرتار پور بھی متاثر ہو گا۔

نومبر میں بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کے موقع پر کرتار پور راہداری  کو کھول دیا جانا تھا لیکن اب کرتار پور راہداری پر بھی موجودہ حالات کے اثرات مرتب ہوں گے۔

 انہوں نے کہا:’کرتار پور راہداری کے لیے پاکستان سنجیدہ تھا لیکن کشمیر میں بھارت کی غیر سنجیدہ حرکت کی وجہ سے سکھ برادری کرتار پور نہیں آ سکے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت سے آنے والے یاتریوں کو ویزے دینے کا عمل بھی متاثر ہو گا

انہوں نے کہا کہ فروری میں پلوامہ حملے کے بعد ہونے والی کشیدگی کے باعث بھارت کے ساتھ تجارت پہلے ہی ختم ہو چکی تھی جس کو اب بحال نہیں کیا جائے گا۔