آہ چاکر رند ایڈووکیٹ – گورگین بلوچ

305

آہ چاکر رند ایڈووکیٹ 

تحریر: گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دو ہزار چودہ  کا سال تھا ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلی بلوچستان کے عہدے پر فائز تھے،  میں نے اسی سال بی ایس او پجار میں شمولیت اختیار کی تھی ہم کچھ دوست لاء کالج کے مسئلے پر ڈاکٹر صاحب سے ملنے گئے تھے میں پہلی بار وزیر اعلی  سیکٹریٹ گیا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کس روم میں جائیں اچانک سامنے ایک لاغر بدن نوجوان ہاتھ میں کچھ فائلیں لے کر آرہا تھا وکالت کی یونیفارم میں دیکھ کر اسی وقت تسکین پہنچا، جب میرے ایک دوست نے کہا سی ایم سے ملنے کا پروسیجر کیا ہے، تو لاغر بدن وکیل نے مجھے مخاطب ہوئے کہا کامریڈ آپ مجھے پہچان نہیں رہے شاید میں نے کہا سر میں پہلی بار آپکو دیکھ رہا اس نے کہا سی ایم کا میٹنگ جاری ہے ایک گنھٹہ تک جاری رہے گا باہر جاکر چمنی میں انتظار کریں گے۔

میں نے کہا سر معذرت کے ساتھ میں آپکو پہچان نہیں رہا، اگر آپ برا نہ مانے تو اپنا تعارف کروائیں، جی میں چاکر رند ایڈووکیٹ ہوں ،تربت سے میرا تعلق ہے اور نیشنل پارٹی کا سینئر ورکر ہوں اور میں آپکو جانتا ہوں پارٹی سیکٹریٹ میں آپکی شمولیت کے موقع پر میں موجود تھا، میں خود بی ایس او کی سی سی ممبر رہ چکا ہوں ، مجھے بی ایس او بہت عزیز ہے آج تک میں خود بی ایس او کے بغیر ایک مکمل انسان سمجھنے سے قاصر ہوں، بی ایس او نے ہمیں شناخت دی، ہمیں اچھے لیڈر پیدا کرکے دیئے میں آپکو کہوں جتنے تعلیم یافتہ بندے بی ایس او نے پیدا کئے ہیں کسی یونیورسٹی نے بھی اس طرح کا شعور یافتہ بندے پیدا نہیں کئے ہیں ۔

چاکر رند ایڈووکیٹ سے پہلی ملاقات میری اسی طرح ہوئی بی ایس او سے شروع بی ایس او تک ختم ،اب ہم ایک دوسرے کے بالکل قریب ہوچکے تھے روز میسج کرنا، تنظیمی معاملات کو زیر بحث لانا ، قومی مسئلوں پہ گفتگو کرنا اور بار بار سوال پوچھنا روز کا معمول بن چکا تھا، کبھی کچہری میں ملاقات ہوتی کبھی پارٹی سیکٹریٹ میں اچھے کردار سلیقہ سے پیش آنا ایک دلیر جوان تھا۔

مرنا ایک دن سب کو ہے اپنی قومی بقاء حق و حقوق کے لیے مقصد منزل کے حصول کے لیے مرنا قربانی ہے مرنے سے وہ لوگ ڈرتے ہیں ان کی زندگی کا مقصد کچھ نا ہو اپنی ذات کے لیے جینا خود مرنے کے برابر ہے، موت کو شکست تب ہوگی جب آپ کی زندگی کی جینے کا مقصد دوسروں کے لیے ہوگا۔

چاکر رند  مرتے دم تک میرانی ڈیم کے متاثرین کے لیے لڑتا رہا اور دوران شہادت بھی ہنستے ہنستے موت کو گلے لگایا، اس کے دل میں یہ ارمان ضرور رہ گیا ہوگا کہ میں اپنی مقصد کے لیے کامیاب نا ہوسکا اس کی مقصد و مطالبات ذات چاکر کے لیے نہیں تھے وہ ان کا مقدمہ لڑ رہا تھا انہیں میرانی ڈیم نے صفحہ ہستی سے مٹایا تھا روز اخباروں میں بیانات میرانی ڈیم کے متاثرین کے حوصلہ افزائی کے لیے یہ نوجوان دن رات بھاگتا رہا۔

میں نہیں سمجھتا چاکر رند اپنے منزل مقصود کے حصول کے ثمر دیکھے بنا اس جہاں  فانی سے کوچ کر گیا ،ضروری نہیں انسان اپنی مقصد منزل کی جدوجہد کی کامیابی کو دیکھ لیں دنیا کی تحریکوں نے بہت لمبے سفر طے کرکے اپنی حصول تک پہنچ سکے ، ان راستوں کے مسافر کبھی بھڑیوں اور جنگلی جانوروں کے نشانہ بھی بنے۔

چاکر رند ایک حوصلہ جہد اور سفر کا نام ہے ،انہوں نے آخری بار مجھے کہا یار مجھے میرانی ڈیم متاثرین کے کیس واپس لینے کے لیے بہت سی آفر آرہی ہیں مگر میں ان بوڑھوں کمزورں کا سہارا خود کو سمجھتا ہوں میں ہرگز اس کیس سے بغاوت نہیں کروں گا، ایک وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے سوشل ورکر اچھے سیاسی لیڈر بھی تھے چاکر رند سے مجھ نا چیز کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا وہ ہمیشہ دوستوں کو مطالعہ کرنے کی تلقین کرتا رہتا تھا کتابوں کا  کرنا ، کتابوں کے بارے میں پوچھنا وہ ایک اعلی مثال کے شخصیت کے مالک تھے کبھی ہم نے سوچا نہیں چاکر بھی ہمیں دوسروں کی طرح چھوڑ جائے گا۔

آٹھ اگست دھماکے کے بعد زخمیوں کا حال پوچھتا رہا، سی ایم ایچ کو مکمل بند کیا گیا تھا ہمیں میسج آیا خون کی اشد ضرورت سارے دوست بھاگا بھاگا سی ایم ایچ گئے مگر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی سنگت جمالدینی چاکر رند کی طبعیت خطرے سے باہر ہے کی خبر سن کر ہم نے سکون کا سانس لیا اچانک یہ دردناک خبر بھی پہنچا چاکر رند اب ہم میں نا رہے ، اسی دن ہم نے ایک وکیل ایک سوشل ورکر ایک سیاسی استاد ایک دوست نما بھائی کھو دیا چاکر ہمیں معاف کریں آپ کو خون کی اشد ضرورت تھی مگر اندر بیٹھے ان لوگوں کو  دیکھا ہوگا کہ وہ ملکموت کے انتظار میں بیٹھے سب کو تڑپتا دیکھ رہے تھے اللہ رب العزت آپ کو جنت الفردوس نصیب کریں۔


ی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔