بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے قندیل بلوچ استاد صبا دشتیاری کے آٹھویں برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صبا دشتیاری کا قتل بلوچ اجتماعی دانش پرحملہ تھا جس کا مقصد بلوچ قوم کے فکری و شعوری تربیت کے درس گاہ کو مٹا کر قبضہ گیریت، نوآبادیاتی نظام اور نوآبادیاتی بیانیے کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ کو ختم کرنا تھا۔ اس میں بلاشبہ قابض ناکامی سے دوچار ہوا۔ صبا صاحب لاکھوں دلوں میں زندہ رہ کر آج بھی بلوچ قوم کے فرزندوں میں شعوری بالیدگی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صباء دشتیاری بلوچ انٹکچول میں سب سے نمایاں اور بہادر تر انسان تھے۔ انہوں نے علم، دانش اور شعور کو کتابوں کی زینت بنانے کے بجائے میدان حق و باطل میں حق کی تائید اور باطل کی تکذیب میں بلوچ سرزمین پر قابض کو للکارا اور حق گوئی میں نئی تاریخ رقم کی۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ قومی تاریخ میں صباء دشتیاری پہلے مزاحمتی فکر و فلسفے سے مزین دانشور تھے جس نے علمی مورچے میں بندوق کے سامنے سینہ سپر ہوکر دنیا پر ثابت کردیا کہ قلم اور شعور ایٹم بم سے زیادہ طاقت ور ہیں اور بندوق سے قلم بردار کو قتل کیا جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ صبا دشتیاری جیسے انسان بلاشبہ صدیوں میں جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے علمی و عملی میدان میں پاکستانی نوآبادیاتی بیانیے، نوآبادیاتی تعلیم اور نوآبادیاتی نظام کو بے نقاب کردیا اور انہوں نے بلوچ قوم بالخصوص بلوچ نوجوانوں کی شعوری و علمی تربیت میں نوآبادیاتی نظامِ تعلیم کی حقیقت آشکار کی اور بلوچ قومی تربیت میں علمی بنیاد پر یہ ثابت کردیا کہ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ قومی تحریک مہم جوئی نہیں بلکہ یہ تاریخی تسلسل اور ارتقائی عمل کا حصہ ہے جس کی جڑیں بلوچ سرزمین ہی میں پیوست ہیں۔ شہید صبا دشتیاری صاحب نے ہمیں یہ لازوال درس دیا کہ آج کے بلوچ کے زندگی کا اولین مقصد اس تحریک کی آبیاری ہونا چاہیئے اور قبضہ گیریت صرف بندوق کے زور پر قابض ہے۔ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہیں اوراس کے منہدم ہونے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ صبا دشتیاری نیشلسٹ مزاحمتی دانشوراور یکتائے روزگار مصنف تھے اور ان کے کردار وعمل میں قوم پرستی ہمیں ہرجانب واضح نظر آتا ہے۔ ان کے زبان و ادب کے میدان میں خدمات ہوں یا سیاست و سیاسی تربیت، انہوں نے بے شمار مقالے لکھے، دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ رسائل وجرائد کی سرپرستی اور ادارت کی، بلوچی زبان و ادب پر تحقیق کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ نہ صرف خود زبان و ادب کے تحقیقی و تخلیقی میدان میں لازوال کام کیا بلکہ تحقیق کاروں کے لئے ”سید ہاشمی ریفرنس لائبریری“ کے نام ایک عظیم الشان لائبریری قائم کیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا شہید قندیل بلوچ کو یاد کرنے اور خراج پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کے فکر و فلسفے پر عمل پیرا ہونا ہے اور بلوچ قوم کی فکری وشعوری تربیت میں شہید کے فکر و فلسفے رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ صبا دشتیاری کا فکر و فلسفہ اور جرات مندانہ موقف نہ صرف بلوچ قوم بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے تا ابد رہنمایانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔