کچھ حقائق
(حصہ دوئم)
جوانسال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اخلاقیات:
پوری کائنات میں جو جاندار بھی زندہ ہے، وہ مکمل طور پر فطری اور روحانی طور پر پابند ہوتا ہے کیونکہ جو بھی چیز وجود رکھتا ہے چاہے وہ phenomenal ہو یا پھر nominal سب ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، ایک خاص میکنزم میں کام کرتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک اس میکنزم سے نکل جائے یا ختم ہو جائے تو دوسروں کے بھی زندہ رہنے کے چانسز کم ہوتے جاتے ہیں ۔ لہٰذا اس دنیا میں تمام جاندار سوسائٹی کی شکل میں رہتے ہیں، تو سوسائٹی کے میکنزم کو چلانے کیلئے جس سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اخلاقیات ہے۔
اخلاقیات کے معنی وہ قانون ہے، جو اچھے اور برے میں تمیز کرے۔ یعنی کیا اچھا اور کیا برا۔ جب یہ عمل مکمل ہوجائے تو دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کیا ہونا چاہیئے اور کیا کرنا چاہیئے۔ لہٰذا وہی کرنا چاہیئے جو سب (سوسائٹی یا قوم) کیلئے اچھا ہو اور وہ نہیں کرنا چاہیئے جو فرد کیلئے تو اچھا ہو مگر سوسائٹی کیلئے باعث عذاب ہو۔ تیسرا یہ کہ اچھائی کی تلاش میں رہو اور خود اچھے بنو ناکہ اچھے انسانوں کی تلاش میں رہو کیونکہ ہر ذی شعور کے پاس اچھا بننے کی صلاحیت ہے۔ لہٰذا اچھائی صرف اچھائی ہی پیدا کرتا ہے۔ اس کیلئے کوئی چھٹی کی حاجت نہیں کہ کب کرنا ہے اور کب نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ اچھائی اچھائی ہی رہتا ہے، وہ ہر لمحہ، ہر وقت کرنا پڑتا ہے۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ اس اخلاقیات کی پریکٹس نتیجہ خیزہو یا بغیر نتائج کےاخلاقیات ایک گروہی عمل ہے۔ تو میرے خیال میں اس کی پریکٹس اور نتائج بھی گروہی مفاد کیلئے ہونے چاہیئے۔ کیونکہ فرد واحد کا اچھا ہونا پورے خاندان، کمیونٹی، سوسائٹی اور قوم کا اچھا ہونا ہے لہٰذا اسکا اطلاق سب پر برابر اور اسکے یپمانے کے مطابق ہوں۔ مثلا ایک معصوم بچہ جو اخلاقیات کی سادہ پریکٹس اور نتائج سے واقف تو ہے مگر اخلاقیات کی پیچیدہ پریکٹس اور نتائج سے واقف نہیں تو اسکا مطلب ہوا پیچیدہ پریکٹس سے بچے کو استثنیٰ ہے۔ اخلاقیات ایک گروہی عمل ہے۔ اسکے نتائج کبھی نہیں ہو سکتے، کیونکہ اخلاقیات ہر انسان کا فرض ہے اور ذمہ داری ہے۔
اخلاقیات سبجیکٹو عمل ہے تو اسکے نتائج نہیں ہو سکتے، یہ بس ایک ذمہ داری ہے جو سراسر پوری کرنی ہے۔ اچھائی کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس set of mechanism کو پریکٹس کرتے ہوئے ہر کوئی اچھا محسوس کرتا ہے۔ پانچواں سوال یہ ہوگا کہ اخلاقیات ہر سوسائٹی یا قوم کہ اپنی ہوتی ہےبلکل ہر قوم کی اپنی ہوتی ہے کیونکہ وہاں کے زمینی حقائق، زبان، سیاسی اقدار، قومی مزاج اور مذہبی اقدار مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ جس قوم میں بھی جائیں تو ان جیسا ہونے کی کوشش کریں تاکہ انہیں خوشی محسوس ہو اور آپ شاید پہچاننے بھی نہ جاو اور آپ ان کی مزاج کو آرام سے کسی حد تک سمجھ جائیں گے اور ہر قوم کی مزاج اسکی زبان اور معاشرتی یا قومی اخلاقیات میں پنہاں ہے کیونکہ آپ جس قوم کی زبان بولیں گے تو اسکے مزاج کو کسی حد تک سمجھ جائیں گے۔ مثلا انگریز برصغیر میں آیا تو پہلے ان قوموں کی زبانیں سیکھ لی تاکہ انکی اخلاقیات و مزاج کو سمجھ جائیں اور انہیں اپنا محکوم بنانا آسان ہو گا۔ اسی وجہ سے انگریز نے برصغیر کی ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی پر ایک لاکھ بیس ہزار گوروں سے کئی سالوں تک قبضہ کیا۔ یا پھر اردوزبان کسی قوم کی زبان نہیں ہے تو اب آپ اردو سیکھ کر کس کی مزاج سمجھیں گے، کسی کی نہیں کیونکہ زبانیں قوموں کا مزاج بتاتی ہیں۔ پنجابییوں کی پنجابی، پٹھانوں کی پشتو، سندھیوں کی سندھی اور بلوچوں کی بلوچی زبان سیکھ جائیں تو انہیں سمجھنا مشکل نہیں ہوگا مگر اردو سیکھنے کا کوئی جواز بھی نہیں بنتا۔ ایک قومی مزاج ہے بیشک آپ جو زبان بھی بولیں مگر آپکا تاریخی مزاج جو آپ میں سرائیت کر گئی ہے وہ کبھی نہیں بدلتا۔ وجہ یہ ہے اخلاقیات کی پریکٹس تو قومی مزاج سے ہو رہا ہوتا ہے۔ مثلاً عنایت بلوچ جو خود ڈیرہ اسماعیل خان کے بلوچ ہیں مگر انکے بلوچی مزاج و درد نے انہیں بلوچ سیاسی مسئلے کو کھنگالنے کی کوشش کروائی وہ مسودہ the problem of greater Baluchistan کی شکل میں آج ہر بلوچ اسے بلوچ سیاست کی کنجی سمجھتا ہے۔ خیر اخلاقیات آپکو اچھے برے میں تمیز سکھاتا ہے۔
جس قوم میں آپکی پرورش ہوئی ہے کم از کم آپ کو اپنے قومی اخلاقیات کو برقرار رکھنا ہوگا، چاہے جہاں کہیں کیوں نہ ہوں۔ لہٰذا بلوچ کے بلوچیت کا جو بھی تقاضا ہوگا، وہ کم از کم ہماری سیاسی تنظیموں میں پریکٹس ہو، کیونکہ جس قوم نے بھی ترقی کی، اس نے اپنے اخلاقیات کی بنیاد پر ترقی کی اور ہماری ہاں کچھ لو گ اخلاقیات کو سیاست سے بلکل الگ سمجھتے ہیں، مگر سیاست بغیر اخلاقیات کے نہیں ہوسکتا کیونکہ اخلاقیات قوم کا مزاج ہے اور اس مزاج کو جب تک آپ نہیں سمجھیں گے، تب تک اس قوم کو سیاسی حوالے سے مضبوط کرنا میرے خیال سے مشکل ہوگا۔ لیکن میں نے آج تک کسی بلوچ سیاسی تنظیم کے کسی میگزین یا تربیتی سریز میں ایک آرٹیکلز تک نہیں دیکھا اور کچھ نام نہاد سیاسی حضرات اخلاقیات کو صرف self interest سمجھتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔