دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عالمی یوم مزدور کی مناسبت سے دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں مزدور تنظیموں کی جانب سے ریلیوں، سمینار، کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا اور شکاگو کے جانثاروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جبکہ اس موقع عام تعطیل کے باعث تمام سرکاری و غیرسرکاری ادارے بند رہے تاہم اجرت پر کام کرنے والے مزدور دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے مشقت کرتے اور بعض مزدوری ڈھونڈتے تھڑوں اور چوکوں پر بیٹھے نظر آئے۔
دارالحکومت کوئٹہ میں مختلف مزدور تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار میں منعقدہ جلسہ پہنچیں۔ ریلیوں میں مزدوروں کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے شرکت کی ۔
میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار میں منعقدہ جلسے سے مزدور تنظیموں کے رہنماوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں مزدوروں کے لئے کام کا دورانیہ 8 گھنٹے مقرر ہے یہ سب شہدائے شگاگو کی مہربانی ہے اس سے پہلے مزدوروں کو سولہ سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتاتھا جس کے خلاف 1886 ء کے بعد میں شگاکو سے مزدوروں نے پرامن تحریک کا آغاز کردیا جس کو سبوتاژ کرنے کے لئے نہ صرف پولیس نے ان پر گولیاں برسائی اور انہیں شہید کیا بلکہ مزدور رہنماوں کو گرفتار کرکے سزائے موت دیدی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ جب پولیس نے امن مزدوروں پر فائرنگ کی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون سے سرخ کرکے ہوا میں لہرا دیا جس کے بعد سے تحریک کا جھنڈا سرخ رہا ۔ سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز اور طاقت کو خون میں نہا دیا گیا مگر جانثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو مزید تقویت دی ۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ماضی میں مزدوروں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور جانوں کے نذرانے تو دیئے مگر ہار نہیں مانی اسی طرح ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ مزدوروں کے حقوق کے حصول تک کے جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور اس دوران کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں لیبر قوانین تو موجود ہیں تاہم ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی مزدوروں کی استحصال کا سلسلہ بدستور جاری ہے، انہیں ان کے کام کے مقابلے میں انتہائی کم اجرت ملتی ہے جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ تک پال نہیں سکتے، انہیں اچھے سکول میں داخل کرانا یا پھر زندگی کی بہتر سہولیات فراہم کرنا تو دور کی بات ہے ۔ ملک میں بچوں کے حقوق کے لئے چائلڈ لیبر کے قوانین موجود ہیں مگر ہر جگہ بچے محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں، غربت اور مجبوری کے باعث وہ اپنا تعلیم ادھورا چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک جانب ملک میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا اور سرکاری و نجی اداروں میں کام کرنے والے مزدور چھٹی منارہے تھے تو دوسری جانب اجرت پر کام کرنے والے مزدور شہروں، گلی کوچوں اور گھروں میں کام کرتے یا پھر روڈوں پر بیٹھے مزدوری پر لے جانے کے لئے لوگوں کی راہ تکتے دکھائی دیئے ۔
اسی طرح ضلع گوادر کے علاقے پسنی میں پبلک ویلفیئرہال پسنی میں منعقدہ پروگرام سے نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبرانجینئرحمیدبلوچ ،پاکستان پیرامیڈیکل ضلع گوادرکے جنرل سیکرٹری یوسف معیار،گورنمنٹ ٹیچرایوسی ایشن کے ضلعی نائب صدر حنیف داد، سماجی ورکرعزیزپیربخش ،بی این پی مینگل کے آرگنائزرلالہ مرادجان ،پسنی پروگریسیوسوساءٹی کے چیئرمین واحدبلوچ ، ماہی گیررہنما کہدعبدالغفوربلوچ و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان فکری اور نظریاتی جنگ آج بھی جاری ہے ،شہدائے شکاگو کے بعد دنیا نے مزدوروں کو معیشت کا اہم پہیہ قراردیاجبکہ پاکستان میں مزدوربھوک سے خودکشی کررہے ہیں ،مزدوروں کا جنگ ہروقت سرمایہ داروں کے خلاف رہاہے مزدورانقلابی کلاس ہے جو ہروقت تبدیلی لاتا ہے ۔
مقررین نے کہا ماہی گیروں کو بھی مزدورتسلیم کیاجائے ، پسنی کی فش کمپنیوں میں مزدوروں کے ساتھ انتہائی ظلم کیاجارہاہے مقامی مزدروں کو کام سے نکالاجارہاہے اور کم اجرت پر مزدروں سے د س دس گھنٹے کام لیاجارہا ہے اور انہیں کوئی سہولیات حاصل نہیں ہے ، خواتین مزدوروں کے ساتھ نارواسلوک کیاجاتا ہے جوکہ قابل مذمت عمل ہے ۔
دریں اثناء ضلع چاغی،نوشکی، حب ، تمبو، نصیر آباد، سبی، خضدار،قلعہ عبداللہ سمیت دیگر علاقوں میں بھی اس مناسبت سے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا جن میں مختلف سیاسی و سماجی رہنماوں نے مزدوروں کے عالمی دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مزدوروں کے حقوق کو بحال کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا۔