بلوچستان میں خواتین کی گمشدگی میں تیزی لائی گئی ہے – وی بی ایم پی/ بی ایچ آر او

301

2017سے بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگی میں تیزی لائی گئی ہے۔ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کا واقعہ عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس پر ملک کے اعلیٰ اداروں سمیت خواتین کی تنظیموں کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔وی بی ایم پی اور بی ایچ آر او کی پریس کانفرنس

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کیمپ میں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں نے بلوچستان میں خواتین کے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں تشویشناک اضافے سے بلوچستان کا ہر طبقہ فکر جن میں بزرگ، نوجوان، بچے اور خواتین بھی شدید متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ روز مشکے کے علاقے گجلی سے فورسز نے آپریشن کرتے ہوئے گل شیر ولد رحمت کی اہلیہ نوری اور بہن جان بی بی کو دونواسیوں سمیت اٹھاکر لاپتہ کردیا۔ تین دن گزرنے باوجود جبری لاپتہ کیئے گئے خواتین و بچوں کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی خاندان والوں کوکسی قسم کے معلومات فراہم کیئے جارہے ہیں اس سے قبل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کئی بلوچ خواتین کو اٹھاکر لاپتہ کردیا گیا ہے جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں کہ وہ کیوں اٹھاکر لاپتہ کردیئے گئے ہیں اور وہ کس حال میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2017سے بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگی میں تیزی لائی گئی ہے۔ مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔ جنوری 2018میں مشکے، راغے اور گچک سے کئی خواتین کو فوجی آپریشن میں لاپتہ کرکے آرمی کیمپ منتقل کیا گیا ۔ اسی دوران ناز گل نامی خاتون دوران حراست ہلاک ہوگئی۔ جون 2018میں ناگ، مشکے اور جھاؤ سے کئی خواتین لاپتہ کیئے گئے جن میں کچھ کو چھوڑ دیا گیا اور کئی اب تک لاپتہ ہیں۔ نورملک جن کو جولائی 2018میں دو بیٹیوں سمیت کیمپ منتقل کردیا گیا جن کے بارے میں آج تک کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے اس کے علاوہ گریشہ سے عدیلہ نامی بلوچ خاتون کو بچوں سمیت اٹھاکر لاپتہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے۔

مزید پڑھیں: نور ملک – دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

رہنماؤں نے کہا خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کا واقعہ عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس پر ملک کے اعلیٰ اداروں سمیت خواتین کی تنظیموں کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو بلوچستان میں تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

انہوں نے پریس کانفرنس کے آخر میں اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگی کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اٹھائیس مارچ 2019کو سہہ پہر 3بجے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کریگی اور اسی دن سوشل میڈیا میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے کیمپئین چلائی جائے گی۔

یاد رہے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے گذشتہ کئی سالوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج جاری ہے جس کو آج 3537دن مکمل ہوگئے جبکہ کیمپ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کیلئے موجود تھی جن میں اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔

دریں اثنا ضلع قلات سے لاپتہ ثناہ اللہ شاہوانی 6 سال بعد بھی بازیاب نہیں ہوسکا۔

لاپتہ ثناہ اللہ کے لواحقین کے مطابق پاکستانی فورسز نے ثنا اللہ کو 24 ستمبر2013 کو قلات ڈگری کالج سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔

لواحقین کا مزید کہنا ہے کہ وہ بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ ثناہ اللہ کے عدم بازیابی پر مجبوراً وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں شامل ہو کر احتجاج کرینگے۔