نا متقابل پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ موومنٹ کا تقابل
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
حقیقت یا زمینی حقائق کو مسخ کرکے یا پھر نظر انداز کرکے فوری طور پر متاثر ہونا یا حتمی رائے قائم کرنا یا اس سے بڑھ کر پھر حتمی فیصلہ کرنا میرے نذدیک بدترین جہالت و لاشعوری ہی ہوگا۔ کم از کم یہ عمل، علم و شعور اور ادراک کی علامت نہیں ہوتا۔
تشدد و عدم تشدد، بد امن و پرامن، مسلح و غیر مسلح طرز و تحریک کی اصطلاحات و تعریف کو شروع سے لیکر آخر تک گڈمڈ کرکے باقی تمام حقائق کو ملیامیٹ یا نظر انداز کرکے حتمی رائے اور فیصلہ کرنا انتہائی افسوناک عمل ہے اور ایسے ذہنوں پر ماتم کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی عمل اور الفاظ نہیں ہیں۔
پشتونوں کی پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون کی شکل میں پرامن و عدم تشدد کی تحریک شروع کرنا، ایک سال میں کامیاب قرار پاتا ہے اور بلوچ قوم کے ماضی بعید کے تحریکوں کو چھوڑیں، موجودہ تحریک 18 سال سے مسلح جہدوجہد کی راہ اپنا کر یعنی تشدد کا راہ اپنا کر چل رہا ہے، ان کا تحریک ناکام ہوگیا کیا؟ یہ لغو قسم کی دلیل، منطق، آراء اور فیصلہ انتہائی مضحکہ خیز، بچگانہ، سطحی اور جہالت کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟ کیا ایسے لغو باتوں اور آراء پر جب مورخ لکھے گا تو وہ بھی سرپکڑ کر ششدر و حیران نہیں ہوگا اور ماتم کرتے ہوئے قلم کو غصے سے جنبش میں نہیں لائے گا؟
میں اس تلخ حقیقت کا کل بھی اعتراف کرتا تھا، آج بھی برملا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ بھی اعتراف کرتا رہوں گا کہ بلوچوں میں جذبہ، احساس، قربانی، محنت و مشقت کے ساتھ خلوص کی موجودگی اپنی جگہ مگر قیادت سے لیکر جہد کاروں تک میں وہ علم و شعور، صلاحیت، بصیرت، وسیع سوچ و اپروچ اور ادراک پیدا ہو، جس کی اشد ضرورت ہے، اس کی بہت کمی ہے یعنی نالائقی و کم عقلی اور خاص کر مستقبل کے ادراک اور پیش بینی کے فقدان کے واضح علامات نظر آتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک سے مجھے ذاتی حوالے سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں اس سے مجموعی طور پر پشتوں قوم کو فائدہ ہو یا نہیں ہو، وہ قبل از وقت ہے البتہ پشتونوں میں پشتون قوم پرستی کے رجحانات دوبارہ زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے خلاف ایک نفرت پیدا ہوگئی ہے اور یہ قومی پرستی کا جذبہ، رجحان اور ریاست کے خلاف نفرت کل کو باقاعدہ قومی آزادی کی تحریک و غلامی سے نجات دہندہ ثابت ہوگی یا نہیں وہ بھی ابھی تک قبل از وقت ہے۔
مگر میں کم از کم ایک بے وقوف اور احمق بن کر کبھی بھی پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون کی نومولود تحریک سے مثاثر ہوکر اسکا بلوچ قومی آزادی کی جنگ سے موازنہ نہیں کرسکتا۔ ہاں! اگر مجھے کوئی زہریلا سانپ سونگھ لے، میں پاگل ہوکر یہ ضرور کہہ دونگا کہ بلوچ تحریک ناکام اور پشتون موومنٹ کامیاب ہوگیا ہے، لیکن ہوش و حواس میں ہرگز میرے لیئے ایسا ممکن نہیں وہ کیوں؟
سب سے پہلے کامیابی اور ناکامی کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اور اس کی ناپ و تول کا پیمانہ کیا ہے؟ اور اس کا موازنہ کرنا، دیکھنا اور سمجھنے کا وہ نقطہ نظر اور زاویہ نظر کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟
کیا یہ جہالت، لاعلمی، لاشعوری، گمراہ کن، حیران کن اور مضحکہ خیر نہیں ہے کہ ایک سال سے پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان جیسے غیر فطری، بدمعاش ریاست کے فریم ورک میں رہ کر اپنے آپ کو مکمل پاکستان کے قانون کا پابند و وفادار ثابت کرنے اور صرف شہری اور ریاستی حقوق کے حصول کی خاطر پاکستان کی آئین و قانون کی بالادستی و بحالی کے خاطر پرسکون ماحول میں چند مظاہرے، چند احتجاجی جلسے و جلوس، دھرنے، انتخابی مہم اور پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر تحریک چلانے کے سوا اور کچھ نہیں یعنی قومی آزادی یا غلامی سے چھٹکارے کا نام و نشان نہیں، پھر اس تحریک کو کامیاب قرار دینا اور بلوچوں کی اس تحریک یا اس جنگ کو ناکام قرار دینا مضحکہ خیز حد تک لاعلمی نہیں تو پھر کیا ہے؟
آپ ماضی کو فی الحال ایک طرف رکھ دیں، بلوچ قوم پورے 18 سال سے اپنے واضح موقف، قومی آزادی و بلوچ ریاست کی بحالی اور پاکستان سے مکمل چھٹکارے کے حصول کی خاطر لڑرہے ہیں، ساتھ ساتھ چین جیسے سامراجی طاقت سے لڑرہے ہیں، اس وقت تک ہزاروں بلوچ شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں بلوچ بدنام زمانہ قلعی کیمپ جیسے ٹارچر سیلوں میں 18 سال سے اذیت سہہ رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اپنے علاقوں سے دربدر مہاجرین کی زندگی گذار رہے ہیں، ایک ہی خاندان سے درجنوں بلوچ فرزند شہید اور لاپتہ ہیں، ایک گھر سے چار یا پانچ بھائی شہید ہوچکے ہیں، آج بھی دشمن کے زیرعتاب کاہان سے لیکر مکران تک بلوچ نوجوان انتہائی کٹھن حالات میں کم وسائلی کے ساتھ بھوک و افلاس، سردی اور گرمی میں پہاڑوں پر مورچہ زن ہوکر دشمن کے خلاف لڑ رہےہیں، شہید ہورے ہیں۔ پاکستان اور چین کی طاقت اور بربریت کے باوجود بلوچ تحریک ناختم ہونے والے اپنے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور آج بھی شہید درویش، شہید ریحان، شہید ازل جان، بلال جان، شہید رئیس اور شہید فرید جیسے نوجوان بخوشی شعوری طور پر اپنی جان قربان کررہے ہیں اور ان کی مائیں اور بہنیں انہیں خوشی سے رخصت کرکے روانہ کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کوئی آکر یہ کہہ دے کہ بلوچ تحریک ناکام اور پشتون تحفظ موومنٹ کامیاب ہوگیا ہے، پھر یہ سیاسی ناپختگی، عاقبت نا اندیشی، سطحیت اور جذباتیت کی حدِ طولیٰ نہیں تو پھر کیا ہے۔ کیا پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون ایسے دور یا مراحل سے ابھی تک گذرے ہیں، جن کا بلوچ تحریک سامنا کرچکا ہے؟ یا پھر ان تمام حالات و واقعات کو سہہ کر پھر بھی ان کی تحریک اسی طرح جاری و ساری ہے؟ کیا پشتون تحفظ موومنٹ براہے راست دوٹوک الفاظ میں پاکستان اور چین سے چھٹکارہ کی بات کررہا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں پھر پشتون تحفظ موومنٹ کا کیسے اور کس طرح بلکہ کس بنیاد پر بلوچ قومی تحریک آزادی سے مواذانہ کرکے اسے کامیاب اور بلوچ قومی تحریک کو ناکام قرار دیا جارہا ہے؟ کیا یہ خود سیاسی بے وقوفی اور احمقی کی آخری درجہ نہیں ہے؟
میں تو کہتا ہوں آج اگر پشتون لیڈر باچاخان سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈران عدم تشدد کے فلسفے کو پیش نہیں کرتے اور پاکستانی طرز سیاست کی راہ نہیں اپناتے بلکہ پاکستان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر عدم تشدد کے ساتھ ساتھ تشدد کا راستہ اختیار کرتے، تو آج خیبر پختون خواہ کی حالت یا پورے پشتون قوم کی حالت اس حد تک مذہبی شدت پسندی اور طالبائزیشن کا شکار نہیں ہوتا۔ آج عوامی نیشنل پارٹی کا یہ برا حال نہیں ہوتا بلکہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں اپنے سینکڑوں لیڈر اور کارکن نہیں گنوا دیتا یعنی کوئی بھی قوم اور معاشرہ جب غلام و پسماندہ ہو، وہاں جس بنیاد پر جس نظریئے کے تحت کوئی جنگ شروع ہو، وہاں کے لوگ اسی جنگ سے متاثر ہوکر اس کی صرف حمایت نہیں کرتے بلکہ اس کا بھرپور حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ جنگ مذہبی ہو قبائلی ہو یا پھر قومی ہو۔
پشتون لیڈرشپ بحثیت غلام قوم عدم تشدد کا فلسفہ پیش کرکے پاکستانی طرز سیاست شروع کرکے خود مذہبی جنگ کو موقع فراہم کررہا ہے، اگر قومیت کی بنیاد پر پشتون قوم اس وقت لڑتے تو پشتون قوم میں آج اس حد تک مذہبی شدت پسندی کی رجحانات نہیں ہوتے گوکہ آئی آیس آئی سمیت دیگر قوتوں نے وہاں مذہبی جنگ شروع کرلی، پھر بھی پشتونوں کی شمولیت و حمایت کی بنیادی وجہ وہاں قومی جنگ کا نہ ہونا تھا، جس کی واضح مثال بلوچ قوم کا ہے، آئی ایس آئی سمیت دیگر قوت بلوچ قوم اور بلوچستان میں بھی مذہبی جنگ و مذہبی شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، پھر بھی اس حد تک بلوچستان اور بلوچ قوم مذہبی شدت پسندی سے متاثر نہیں ہوئے، اس کا تمام تر سہرا بلوچ مزاحمت اور تشدد کی تحریک کے سر سجتا ہے، وگرنہ آج پورا بلوچ قوم اور بلوچستان کا ہر علاقہ طالبان کا گڑھ و مرکز ہوتا اور ہر بلوچ نوجوان طالبان اور کشمیری جہادی ہوتا تھا، خاص طور پر ان 18 سالوں میں اگر پھر بھی انتہائی کم تعداد میں بلوچ شدت پسندی سے متاثر ہوئے ہیں بھی تو اس کا بنیادی وجہ اس وقت کی مزاحمت کی سرد مہری ہے۔
یہ ایک مانا ہوا مستد حقیقت ہے، اس سے انکار کرنا کم علمی اور کم عقلی ہے کہ قومی جنگ اور تشدد خود قوموں کی تشکیل، قومی ترقی اور علم و شعور کی بنیاد پر ہوتا ہے، غلامانہ سماج اور غلامانہ معاشرے میں بے حسی یا خاموشی خود قوموں کے زوال و فنا کا مقدر ثابت ہوتا ہے، پھر کس بات اور دلیل کی بنیاد پر بلوچ ناکام اور پشتون کامیاب ہوگئے؟ کیا ایک سال میں پشتون قوم نے عدم تشدد یا پرامن تحریک شروع کرکے پاکستان سے نجات حاصل کرلیا یا آزاد پشتونستان بن گیا؟ گوکہ بلوچ قوم بھی آج تشدد کی تحریک سے آزاد تو نہیں ہوا ہے البتہ قومی آزادی کی سوچ، آزاد ریاست کی تشکیل کی فکر بلوچوں میں جس حد تک پختہ ہوچکا ہے، اسکی مثال ماضی میں نہیں ملتا۔ وہ پختگی خود کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے، پشتونوں میں وہ سوچ ابھی تک نہیں ہے پھر کامیابی کس بات کی؟ چند ہڑتالوں، مظاہروں اور پاکستان کے قانون کے تحت احتجاجوں کی کامیابی کو تحریک کی کامیابی کا نام دینا مضحکہ خیز نہیں ہے؟
یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ بلوچ تحریک آج کہاں پر کھڑا ہے، تحریک میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں، یہ تحریک کا حصہ ہیں، اس کی مختلف وجوہات ہوتے ہیں، ان کو سمجھنا ہوگا، یہ دیکھنا اور غور کرنا ہے کہ بلوچ قوم سوچ کے حوالے سے کہاں پر کھڑا ہے؟
18 سال پہلے کسی بلوچ ماں باپ کا بیٹا ایک دن پولیس تھانے میں قید ہوتا تو چیخ و پکار اور رونے دھونے سے زمین و آسمان کو ایک کرتے، آج شہید ازل جان اور شہید ریحان کی ماں کی طرح سینکڑوں مائیں شہادت اور قومی آزادی کی جنگ کے حوالے سے اپنے لخت جگروں کو بخوشی روانہ کرتے ہیں بلکہ ان پر فخر کرتے ہیں، کیا سوچ کے حوالے سے یہ ذہنی و فکری تربیت پرامن تحریک کے وجہ سے ہوئے؟
ہاں البتہ قومیت یا مظلومیت اور ریاست پاکستان کے خلاف نفرت کی بنیادوں تک بحثیت مظلوم بلوچ اور بلوچ جہدکار کی حثیت سے پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرنا، ہمدردی رکھنا، بالکل درست عمل ہے لیکن قومی جنگ اور دشمن کے خلاف تشدد سے راہ فراریت اور خوف میں مبتلا ہوکر بزدلی کا شکار ہوکر، پاکستانی فریم ورک و پاکستانی آئین و قانون کے دائرے میں احتجاجوں، مظاہروں اور دھرنوں کو بلوچ قومی آزادی کی جنگ سے موازانہ کرکے عدم تشدد یا پرامن جدوجہد کی کامیابی کا نام دیکر بلوچ مسلح جدوجہد کو ناکام قرار دینا انتہائی گمراہ کن عمل اور قومی جنگ سے راہ فراریت کے لیئے راستہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش ہے بلکہ پہلے خود جنگ کے ساتھ ہوکر اور جنگ میں شہید ہونے والے اپنے دوستوں کے خون سے غداری ہے اور ایسے غداروں کو نا تاریخ معاف کریگی اور نہ قوم معاف کریگی۔
18 سال سے تشدد اور مسلح جدوجہد کے نام پر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کو تبلیغ کرنا اور نوجوانوں کو جنگ اور تشدد کی ترغیب دینا، دوسرے معنوں میں نوجوانوں کے قیمتی جانوں کو قربان کروانا، اب پشتون تحفظ موومنٹ جیسے پاکستانی آئین اور قانوں کی پابند تحریک کی مثال پیش کرکے پرامن جدوجہد کی بات کرنا شہداء کے خون کے ساتھ واضح غداری ہے، قومی تحریک اور جنگ سے رافرایت اور غدادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی جاکر براہے راست دشمن کے ساتھ شامل ہو، دوسرے چیزوں کی طرح غداری اور راہ فراریت کی بھی مختلف شکلیں ہوتے ہیں، اس حالت میں قومی آزادی کی پرتشدد جدوجہد کی مخالفت میں دلیل پیش کرنا یا یہ بار بار کہنا کہ کچھ نہیں ہے اور کچھ نہیں ہوگا، اب جنگ کے لیئے حالات ساز گار نہیں ہیں یا پھر اس حالت میں بے حس خاموش اور بے عمل ہوکر آرام اور سکون سے زندگی گذارنا، یہ سب کے سب راہ فراریت اور غداری کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں، خاص کر اپنے شہید دوستوں کے خون اور محنت و مشقت کے ساتھ۔
براہے راست دشمن کا حصہ بننے والے یا اعلی اعلان سرنڈر ہونے والوں سے زیادہ خطرناک خاموش سرنڈر ہونے والے اس قسم کے جہدکار ہوتے ہیں، یہ دشمن سے زیادہ تحریک کے لیئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں، یہ تحریک میں موجود ہوکر تحریک کو نقصان سے دوچار کرتے ہیں اور دشمن تحریک سے باہر تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے یعنی باہر والے اتنا زیادہ خطرناک نہیں ہوتا جتنا اندر والا خطرناک ہوتا ہے۔
بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوان ہمیشہ ہر معاملے و ہر مسئلے بلکہ ہر معمولی اور غیر معمولی چیز پر ایک بار نہیں بار بار سوچ لیں اور فیصلہ کریں، اور اندر و باہر کے دشمنوں کو پہچان لیں، وگرنہ تحریک کو زیادہ نقصان ہوگا، پھر تاریخ میں کوئی معاف نہیں ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔