زبان قوموں کے وجود کیلئے ناگزیر اہمیت رکھتا ہے – بی ایس او آزاد

186
بلوچ قوم کی مادری زبانیں معدومیت کا شکار نظر آتی ہیں جس کے لئے بلوچ دانشوروں ادیبوں شاعروں اور طالب علموں کے ہمراہ ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مادری زبان کی ترقی و ترویج کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں – بی ایس او آزاد
‎بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کسی بھی قوم کے لئے مادری زبان ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ مادری زبان نہ صرف اقوام کی شناخت کا ذریعہ ہے بلکہ مادری زبان تعلیم، ابلاغ اور ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ثقافت،تہذیب و تمدن کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں مختلف روایات ،منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔‎مادری زبان کے تاریخی پہلوکے متعلق ترجمان نے کہا کہ 21 فروری 1952 کو ریاست پاکستان نے جگن ناتھ یونیورسٹی، ڈھاکہ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے طالب علموں کو بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کا مطالبے کے پاداش میں ریاستی جبر کا نشانہ بنایا تھا لیکن بنگالی قوم نے اپنے انتھک محنت اور جدوجہد کے بدولت اپنے قومی بقاء اور زبان کو محفوظ کیا اور آج دنیا بھر مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔
‎آج ریاست بلوچ قوم کے مادری زبانوں کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا جارہا ہے جو آج سے 67 سال قبل بنگالی زبان کے ساتھ روا رکھا گیا۔ریاست نہ صرف بلوچوں کے مادری زبانوں کو ختم کرنے کے لیے کمر بستہ ہے بلکہ باقاعدہ تقسیم کرو حکومت کرو کی پالیسی کے تحت بلوچوں کے مادری زبان براہوی اور بلوچی زبان کو الگ الگ اقوام کی زبان سے تشبیہ دیکر بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

‎ آج ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ قوم کی مادری زبانیں معدومیت کا شکار نظر آتی ہیں جس کے لئے بلوچ دانشوروں ادیبوں شاعروں اور طالب علموں کے ہمراہ ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مادری زبان کی ترقی و ترویج کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں کیونکہ زبان نہ صرف شناخت کا ذریعہ ہے بلکہ قومی کی ترقی کا زینہ بھی مادری زبان ہے۔