بلوچستان میں 16 سو سے زائد اسکول محض کاغذوں میں موجود، تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محرام

795
فائل فوٹو

بلوچستان میں 16سو سے زائد سرکاری سکول محض کاغذوں میں موجود ہیں، تعلیمی ادارے تمام سہولیات سے محروم ہیں۔

بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بے بیشتر سرکاری سکولو ں میں پینے کا صاف پانی، واش روم کی سہولت، چاردیواری، بجلی، گیس، بلڈنگ، سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جس کے باعث طالب علموں کو مستقبل دھاو پر لگ گی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کی تعلیمی نظام پسماندگی کا شکار ہیں، ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے تعلیمی ایمرجنسی کے نافذ کرنے کے دعوے کئے مگر سرکاری سکولوں کی تقدیر نہ بدل سکی۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق بلوچستان میں ٹوٹل 13 ہزار 6 سو 75 سکول موجود ہیں جن میں سے 11 ہزار7 سو47 سکولوں کی بلڈنگ موجود ہیں جبکہ 16سو 25 سکول کاغذوں کی حدتک موجود ہیں۔

مزید برآں 5 ہزار 3 سو 64 سکولوں میں صرف ایک استاد طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں،7 ہزار 9 سو 11سکولوں میں واش روم سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، 10 ہزار 55 سکولوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں ہیں،5ہزار 8 سو 40 چاردیواری سے محروم ہیں جو سیکورٹی کا ایک بڑا رسک بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: جامعے سے چھاونی تک – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

8ہزار 9 سو 27 سکولوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں جبکہ 11 ہزار7 سو47 سکولوں میں سے صرف 342 سکولوں میں گیس کی سہولت موجود ہیں دیہی علاقے تو ایک طرف صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 16 ہزار طلبا و طالبات کے لئے 6 سو37 سکول ہیں جن میں سے 146 سکول عمارت سے محروم ہیں۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے ایوانوں براجمان حکمران ہمیشہ دعوے کرتے ہیں کہ تعلیمی صورتحال میں بہتر ہورہی ہیں مگر صورتحال اس کے برعکس ہیں ۔ حکومت ہر سال تعلیم کے نام پر کرڑوں روپے کا بجٹ مختص کرتی ہیں مگر یہ بجٹ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہیں جس کی ایک وجہ بلوچستان گھوسٹ اساتذہ کی کثیر تعداد ہیں جو گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔