آؤ ان کی آواز بنیں، جن سے ڈر کر دشمن نے انہیں بے آوازکر دیا – سارین بلوچ

360

آؤ ان کی آواز بنیں، جن سے ڈر کر دشمن نے انہیں بے آوازکر دیا

تحریر: سارین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ اچانک میری نظر ایک پوسٹ ( ایک لاپتہ افراد کی کہانی اس کی زبانی) پر پڑی. جسے میں نظر انداز نہیں کرنا چاہا اور اس لنک پر کلک کر کے تحریر پڑھنے لگی، تحریر پڑھتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ کس قدر یہ دردناک کہانی ہے، جو کسی زندہ انسان پر بیتی ہے مگر نہیں یہ میرے اندازے سے کئی گنا بڑھ کر دردناک تھی۔

تحریر کو پڑھنے کے بعد کئی گھنٹوں تک میں نے سونے کی کوشش کی مگر ہر بار میرے کانوں میں ایک عجیب سی آواز گونجتی رہی. میں نے آنکھیں بند کیئے، تو میری نظروں میں لاپتہ افراد کی تصویریں آنے لگیں اور جیسے ہی میں آنکھیں کھولنے لگتی تو میرے سامنے انسہ کی بے بس تصویر آجاتی تھی، جس میں وہ اپنے بھائی کی تصویر پکڑ کر کٹھ پتلی حکمرانوں سے اپیل کررہی تھی اور رو رو کر کئی نوجوانوں کے سینوں میں درد کو ابھار رہی تھی کہ اٹھو اب وقت آگیا ہے، اب بغاوت کرو، اب دشمن کو بتا دو کہ بلوچستان لاوارث نہیں ہے، بلوچستان میں لوگوں کی جانیں بے قیمت نہیں ہیں، اب بلوچستان کی مائیں، بہنیں اور ظلم نہیں سہہ سکتے. اب ظلم کے خلاف بغاوت کرنا ہوگا کیونکہ خاموش ہوکر ہم دشمن کو اور زیادہ وار کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔

خود یہ پاکستانی اپنے ماضی کی جنگوں کی داستان سنا کر طالب علموں کو کہتے ہیں اگر ہم تمہیں بتا دیں کہ انڈیا کس قدر ہم پر ظلم کرتا تھا تو تم لوگ سن نہیں پاؤگے تمہارے آنکھوں میں آنسو آئینگے۔ ہمیں آنسو بہانے کی ضرورت نہیں، ہم خود اس سے بڑھ کر کئی دردناک داستانوں سے گذررہے ہیں. تمہارے ظلم کی وجہ سے ہماری ماں بہنوں کے روز جو آنسو بہتے ہیں اور اب اپنے پیاروں کے انتظار میں ان کے آنسو بھی خشک ہوگئے ہیں، اس ایک ایک قطرے کا حساب تمہیں دینا پڑے گا۔

محمد علی جناح کے 14 نکات پڑھا کر یکسانیت (equality) کی باتیں کرتے ہو، کبھی اپنے طالب علموں کو یہ بھی پڑھاؤ کہ تم نے کس کس کو انصاف دیا ہے؟ سوائے پنجابی کے بلوچ، پشتون، سندھی کے ساتھ جو ناانصافیا‌ں ہورہی ہیں کبھی وہ بھی بیان کرو۔

کس طرح بلوچ قوم کو ان کے اپنے ہی ملک میں چیک پوسٹوں پر ذلیل کرتے ہو، بزرگوں کو گھسیٹ کر گاڑی سے اتارتے ہو اور بات کرتے ہو انصاف کی۔ اپنے ہی ملک میں انہیں کسی چیز پر اختیار نہیں ہے. بلوچستان کو بیچ کر اس کے تمام وسائل لوٹ کر انہیں تعلیم سے دور رکھ کر ان میں مذہبی جنونیت پیدا کرکے بات کرتے ہو انصاف کی۔

ایک طرف تم بلوچ نوجوانوں کو نشے میں مبتلا کر کے، دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کو اغواء کر کے ان کے تشدد زدہ لاشیں پھینکتے ہو یا پھر ان کے لاشیں ہی نہیں ملتے، تم صرف لاپتہ افراد کو اذیت نہیں دیتے ہو بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی اذیت دیتے ہو اور بات کرتے ہو انصاف کی۔

سارے وسائل لوٹ کر بدلے میں تم ہمیں تشدد زدہ لاشیں عید کے روز تحفے میں دیتے ہو اور بات کرتے ہو انصاف کی۔

میں بلوچ قوم کو یہی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اٹھو اپنے بلوچ بہنوں کا ساتھ دو، ان کی آواز بنو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے آج جس حالت سے وہ لوگ گذررہے ہیں کل آپ کے خاندان کو گذرنا پڑے. اٹھو اور اپنے حق کے لیئے آواز اٹھاؤ. بہت اٹھا لیا ہم نے لاشیں اور کئی زندہ لاشیں زندانوں میں بند ازیتوں کو سہہ رہے ہیں، ان میں سے ایک دو اگر بازیاب ہو بھی گئے ہیں تو اس حالت میں نہیں کہ وہ سکون کی زندگی گزار سکیں۔

ایک انسانی جان کی قیمت دنیا کے تمام اثاثوں سے زیادہ ہوتی ہے، مگر افسوس کہ ہمارے قیمتی جانیں اجتماعی قبروں سے ملتی ہیں اور ہم خاموش رہتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔