بلوچ قومی تحریک، سیاسی رویے – لطیف بلوچ

452

بلوچ قومی تحریک، سیاسی رویے
عالمی سیاسی تبدیلیوں کے تناطر میں

تحریر۔ لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

امریکا بہادر نے 9/11 کے بعد اچھا مسلمان، بُرا مسلمان کا نظریہ متعارف کرایا تھا، اس طرح پاکستان نے اچھا طالبان، بُرا طالبان کا نظریہ پیش کیا۔ اب کچھ عرصے سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ بلوچ سیاست اور بلوچ تحریک میں بھی یہ اچھا، بُرا، غدار اور وفادار کا سوچ متعارف کیا جاچکا ہے، اچھا مسلمان بننے کے لئے امریکا کے شرائط ماننے پڑے تھے، اچھا طالبان بننے کے لئے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے ہاتھوں بیعت کرنا پڑتا تھا، اب اچھا بلوچ بننے کے لئے مخصوص گروہوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ان مخصوص گروہوں کے ہاتھوں بیعت کیا جائے تو وہ فرد سب سے اچھا بلوچ، سرمچار، جہد کار، سیاسی کارکن اور ہیومن رائٹس ڈیفنڈر بن سکتا ہے اگر کوئی ایسا نہیں کرے گا حکم ماننے سے انکاری ہوگا پھر وہ شخص گستاخ، نافرمان، سرکش، ایجنٹ اور غدار قرار دیا جائے گا اور اس طرح گستاخی کا سزا اور جزا بھی مخصوص گروہ طے کرتے ہیں، غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں، اس اچھے، بُرے، غدار، وفادار، نافرمان، فرمان بردار کے دوڑ میں تحریک کو اصل ہدف سے ہٹانے اور مفروضات، خرافات اور توہمات کے پیھچے لگا کر قوم کو اندھی تقلید کرنے کی درس دے رہے ہیں۔ تعصب اور نفرت پھیلا کر قوم اور تحریک کو تقسیم کرنے کی سعی کی جاری ہے۔ اچھے، بُرے کے اس بحث اور جنگ میں ایک پوری نسل کو نفرت کے بھینٹ چڑھا کر قوم پرستانہ نظریات کو روندا جارہا ہے، قومی پرستی اور وطنی دوستی اچھے، بُرے، غدار، وفادار، نافرمان، فرمان برادری کا درس نہیں دیتی قوم پرستی ایک فرد سے وفاداری کا نظریہ نہیں بلکہ قوم اور سرزمین سے محبت، دلی لگاؤ کی طرف مائل کرتی ہے اور تفریق و تقسیم کو قبول نہیں کرتی۔

اچھے، بُرے، غدار اور وفادار کے اس مقابلے میں دشمن کے بجائے بلوچ قوم پرست ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا سمیت دستیاب محدود ذرائع کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، یہ تنقید برائے تنقید، طنز و مزاح، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ٹانگیں کھینچنے کے عمل کو اس سے قبل بھی استعمال میں لایا گیا ہے اور اب دوبارہ اُس عمل کو دہرانے کی کوشش کی جاری ہے، جس عمل سے کسی کے پلے نہ پہلے کچھ پڑا نہ اب کچھ پلے پڑے والا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ جو ساتھی لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں یا کوئی اور عمل کرسکتے ہیں، وہ منفی لکھنے، بولنے اور عمل کرنے کے بجائے مثبت سوچیں لکھیں اور بولیں، اپنے عمل و کردار کو بہتر کرکے مظلوم و محکوم، ظلم و جبر کی چکی میں پسے بلوچ قوم کی رہنمائی کریں اُنھیں اپنے فلسفیانہ دانشوری، الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی بجائے اُنکی نفسیات کے مطابق اُنھیں سمجھائیں تاکہ ہر بلوچ اپنے قومی فرض سے آگاہ ہوسکے اور موجودہ گھمبیر و گنجلک حالات میں اپنا کردار ادا کرسکے، آنے والی چیلنجر اور تبدیلیوں کے لئے تیار ہوسکے۔

اچھائی، برائی کی اس جنگ میں دیکھا جائے بلوچ قومی تحریک آزادی سے وابستہ آزادی پسند قوتوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ نقصان دینے کی بھر پور کوشش کرتے رہے ہیں، دشمن نے بلوچ آزادی پسندوں کے آپسی اختلافات کا فائدہ اُٹھا کر بلوچ قومی تحریک کو کمزور و ختم کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے، بلوچ سرزمین کو حصے بخرے کرکے بلوچ سرزمین، ساحل اور وسائل کو چینیوں اور عربوں میں تقسیم کررہی ہے، سی پیک اور ترقی کے نام پر چین کو بلوچستان لاکر گوادر اُن کے حوالے کرچکا ہے اور چین اپنے سامراجی مقاصد کے تکمیل کے لئے بلوچ ساحل پر قابض ہے اور پاکستان سے ملکر چین اپنے اس قبضہ گیریت کو وسعت دے کر بلوچستان کے وسائل کو بڑی بیدردی سے لوٹ رہا ہے۔ اب اس بہتی گنگا میں سعودی عرب بھی غوطہ زن ہوکر بلوچ وسائل پر اپنے ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کررہا ہے اور بلوچ، پاکستان تنازع میں چین کے بعد اب سعودی عرب بھی فریق بن چکی ہے، سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے پاکستان ہمیشہ دوغلاپن کرکے اُن سے امداد کے نام پر اربوں ڈالر ہتھایا کر مظلوم اقوام کی نسل کشی کررہی ہے اور عرب ممالک کے مفادات کو بھی نقصان دیتا آرہا ہے۔

کبھی ایران سے ملکر اُن کو بلیک میل کرتا ہے، کبھی اُنکے دیگر علاقائی تنازعات میں ٹانگ اڑائی کرتا رہا ہے، علاقائی تنازعات اور کشیدگی میں پاکستان ہمیشہ فریق بنتا رہا ہے اب سعودی عرب کو اپنے داخلی تنازعات میں فریق بناکر خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دینے کی سازش کررہی ہے لہٰذا بلوچ قوم پرست آزادی پسند قوتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی تعلقات کو استعمال کرکے سعودی عرب سے رابطہ قائم کرکے اُنھیں اس بات پر قائل کریں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ اور جنگ زدہ خطہ ہے پاکستان جبری طور پر بلوچ سرزمین پر قابض ہوکر بلوچ وسائل کو لوٹ رہا ہے، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک بلوچ سرزمین پر سرمایہ کاری سے گریز کریں کیونکہ پاکستان اُنھیں اپنے مفادات کی حصول کے لئے اس شورش ذدہ خطے میں دھکیل رہا ہے اور سعودی عرب کے بلوچستان میں سرمایہ کاری سے مزید کشیدگی ہوگی ایران و سعودی تنازع کا شکار اس خطے کے معصوم لوگ بنیں گی۔

بلوچ آزادی پسند قوتیں اچھے، بُرے کی اس بحث، تنقید برائے تنقید کی ماحول سے نکل کر تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی سیاسی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیں آپسی اختلافات میں الجھنے اور سوشل میڈیا پر جاری غیر ضروری، لا حاصل جنگ کا خاتمہ کرکے اپنی نظریں دنیا کی سیاست پر مرکوز کریں کیونکہ عالمی طاقتیں اپنے ایجنڈے کو اپنے ضروریات و مفادات کے مطابق تکمیل تک پہنچائیں گے، ایسا نہیں ہو کہ بلوچ آزادی پسند آپسی جنگ و جدل، کھینچا تانی میں لگے رہیں اور کسی کرزئی کو بلوچستان پر مسلط کرکے امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتیں اس خطے میں اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں کیونکہ خطے میں جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں، عالمی سیاسی منظر نامے پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ یہ اس بات کی جانب واضح اشارے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں جنوبی ایشیاء میں بھی سیاسی اُتھل پتھل کے واضح امکانات موجود ہیں۔

امریکا اگر ایران پر حملہ کرتا ہے یا پاکستان کا گھیراو تنگ کرتا ہے دونوں صورتوں میں بلوچستان متاثر ہوگا، اس کے علاوہ اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑتا ہے ایسے میں بلوچ آزادی پسند قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی بلکہ اُنکا امتحان ہوگا کہ وہ ایسے کسی صورتحال کا کس طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور ایسے کسی بھی ممکنہ سیاسی و علاقائی تبدیلی کی صورت میں کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ بلوچ آزادی پسند قیادت نے ایسے کسی ممکنہ سیاسی تبدیلی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے کوئی ہوم ورک کیا ہے یا نہیں اور عالمی سطع پر سیاسی تعلقات کی کیا نوعیت ہے؟ خطے میں ایسے کسی ممکنہ تبدیلی کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔

بی این یم، بی آر پی، ڈبلیو بی او، ایف بی ایم سمیت دیگر تنظیمیں عالمی سطع پر سرگرم عمل ہیں، اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ان تنظیموں کے سرگرم کارکنان دنیا کی توجہ بلوچستان میں جاری مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے جانب متوجہ کرنے کے لئے احتجاج، یو این او سمیت دیگر فورمز پر آواز بلند کرتے آرہے ہیں لیکن اب تک خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں کیونکہ بین الاقوامی ڈپلومیسی کے کچھ اپنے قوائد و ضوابط ہیں، کچھ بلوچ تنظیموں کی کمزوریاں بھی ہیں، جس وجہ سے ڈپلومیسی میں مشکلات درپیش ہیں۔

جس طرح گراونڈ پولیٹکس میں اتحاد و یکجہتی کا فقدان ہے، بین الاقوامی سطع پر بھی بلوچ تنظیموں کے درمیان تفریق و تقسیم واضح طور پر نظر آرہی ہے، مختلف حصوں میں بٹنے اور موثر سیاسی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے اب تک اقوام متحدہ، سمیت عالمی قوتوں کی حمایت اور توجہ سے بلوچ تحریک محروم ہے، بلوچ سیاسی تنظیموں، رہنماؤں کی آپسی اختلافات اور کمزوریوں کی بازگشت اب عالمی سطع پر سنائی اور دکھائی دے رہی ہے، آپسی اختلافات بھی کس حد تک عالمی حمایت، موثر سفارتکاری میں رکاوٹ کے سبب بن رہے ہیں، عالمی حمایت حاصل کرنے کے لئے عالمی سیاسی سفارتکاری کی تقاضوں پر پورا اُتر کر ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر الزامات اور بیانات سے بہتر ہے اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے عالمی سطع پر سفارتکاری میں کیا مسائل درپیش ہے؟ ناکامیوں اور کمزوریوں کی وجوہات کیا ہیں؟ تحریک کو عالمی سطع پر درپیش سیاسی مسائل اور رکاوٹوں کا حل کیسے اور کس طرح ممکن ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔